اسکولوں میں تعلیم کو بہتر بنانا – دو تجاویز

ڈریم لائبریری

آمنہ ظفر کی تجویز

علم حاصل کرنے کے لیے خواندگی پہلا اور اہم  ترین مرحلہ ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں پاکستانی بچے ، خاص طور پر وہ بچے جو پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومتی اسکولوں  میں تعلیم پاتے ہیں خواندگی میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیںَ ۔ راقم کا خیال ہے کہ اگرچہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔۔ بے تخیل نصاب، ناقص نصابی کتابیں، غیر موثر تدریس، غیر آرام دہ بنیادی سہولتیں، (مثلا پنکھوں کی کمی، غسلخانوں کا فقدان، ٹوٹی پھوٹی کرسی، میزیں، کھیل کے میدان کانہ ہونا)، اس کے علاوہ  طلباء کے ساتھ غیر حساس سلوک،انھیں شرمندہ کرنا، وغیرہ،یہ سب ایسے طریقہ کار یا حقائق ہیں جو طالب علموں میں دھوکہ دہی ، سرقہ(پلیجیے رزم) ا ور  بجائے سمجھ کر پڑھنے کے رٹنے کی عادت ڈال دیتے ہیں۔

ان سب چیزوں کا مجموعی نتیجہ طلباء کی تعلیم میں عدم دلچسپی کی شکل میں ظاہر ہورہاہے۔ عدم دلچسپی بچوں  کی خواندگی کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتی۔  اس صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میری تجویز یہ ہے کہ سب سے پہلے، بچوں کی پڑھنے میں دلچسپی  بڑھانے پر پوری توجہ دی جانی چاہیے۔اس کے لیے دیگر اقدامات پر صَرف کیے جانے والے زیادہ وقت یا بہت زیادہ خرچے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ کام پاکستان کے پورے تعلیمی نظام کی بحالی کا انتظار کیے بغیر کیا جا سکتا ہے۔

میری پہلی تجویز یہ ہے:

اس تجربے کے لیے پاکستان کے ہر صوبے میں ایک گورنمنٹ اسکول کا انتخاب کیا جائے۔ ہر اسکول میں ایک بڑا، ہوا دار اور روشن کمرا چُن لیں۔ اگر ایسا کمرہ دستیاب نہ ہو تو بنا لیں۔ اس کمرے کو اسکول کی لائبریری کا نام دیا جائے ۔ لائبریری کو بہت صاف و ستھرا ہونا چاہیے، اس میں ایک سے زیادہ پنکھے، ایک قالین یا دری، اور بچوں کے بیٹھنے کے لیے آرام دہ کشن ہونےچاہیں ۔ زیادہ فرنیچر کی ضرورت نہیں،  صِرف  لائبریرین کی میز اور کرسی، کتابوں کی الماریاں ،اور ان طلباء کے لیے جو لکھنا یا  تصویریں بنانا چاہتے ہوں  چند چھوٹی میزیں اور کرسیاں ۔ بچوں کے استعمال کے لیے چند ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، ایک وائٹ بورڈ اور وائٹ بورڈ مارکر ہونے چاہیں۔ البتہ دیواروں پر کئی  تصاویر لٹکائی جائیں، ایک دیوار بچوں کی اپنی تخلیقی کاوشوں کے لیے مختص ہو۔ مختصراً، لائبریری کو ایک ایساکمرا ہونا چاہیے جس سے زیادہ پرکشش اور آرام دہ کمرے میں اس اسکول کے بچوں کی اکثریت نے کبھی قدم نہ رکھا ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ طالب علم لائبریری کی طرف راغب ہوں اور خوشی سے وہاں جایا کریں۔ لائبریری کو مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے تیار کرنا چاہیے:

بچوں کو لائبریری کے آداب اور اس کے  استعمال کا طریقہ سکھانا۔

2۔بچوں کے لیے خوشگوار اور انتہائی دلچسپ ماحول مہیا کرنا، جو سزاؤں یا سخت سرزنشوں سے مبرا ہو۔ 3. طلباء کی شمولیت، مثلاَ ان کے تخلیقی کام کو ایک مخصوص دیوار پر کچھ دنوں کے لیے لٹکائے رکھنا، ان سےاُن کی اپنی پسندیدہ کتابوں کو پڑھ کر کہانی سنانے کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے کہنا۔ کہانی لکھنے کے مقابلے کروانا۔ دیواروں پر لٹکائی جانے والی تصویروں میں سے کم از کم 50 فی صد ان کی رائے سے انتخاب کرنا، وغیرہ۔

4. سرگرمیاں۔ بہترین کہانی کاروں کے ساتھہ کہانی سنانے کے سیشن کثرت سے منعقد ہونے چاہئیں۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ کہانیوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں مثلاَ ، انھیں کہانی کیوں پسند آئی۔ کہانی سنانے والے سے کہانی پر تبادلہ خیال کریں۔اچھے مقررین جو بچوں سے بات کرنے کا فن رکھتے ہیں انہیں موجودہ دور کے مسائل، مثلاَ  موسمیاتی تبدیلی، صاف پانی، تحفظِ ماحولیات ، صفائی، وغیرہ کے بارے میں پڑھہ کر سنانے/ بولنے، کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے۔ یا وہ دوسرے ممالک اوران کی مختلف ثقافتوں وغیرہ کے بارے میں بتائیں۔ وقتاً فوقتاً، فطرت، کھیلوں یا ایسے دوسرے موضوعات پر فلمیں دکھائی جائیں جن میں بچوں کو دلچسپی  ہو اور جو  دنیا کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ کریں۔

5۔  پرنٹ کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا پربھی بہت ساری اور بہترین باتصویر کتابوں کی دستیابی۔ بچوں کو آزادانہ طور پر اپنے پڑھنے کے مواد کا انتخاب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کتابیں علاقائی زبانوں، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہوں۔ لائبریرین کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اُن  بچوں کی رہنمائی کرسکے جو اپنی  منتخب کتاب کو پڑھنے یا سمجھنے میں مدد چاہتے ہوں۔

6 ۔بچوں کے اعتماد اور خود مختاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ساتھہ ہی انہیں بتایا جائے کہ ہر شعبے کا اپنا مخصوص نظم و ضبط ہوتا ہے (جیسے لائبریریوں میں بلند آواز میں یا طویل بات نہیں کرنی چاہیے۔  کچرا نہیں پھینکنا چاہیے؛ اور کتابوں پر لکھنے یا ان کے صفحات پھاڑنے کاتو سوال ہی نہیں ہوناچاہیے)۔جب بچوں میں  پڑھنے سے رغبت پیدا ہوجائے اور وہ اُس لذت اور علمیت کا مزہ چکھہ لیں جو کتابیں (مطبوعہ یا ڈیجیٹل) فراہم کرتی ہیں، تو یہ توقع کی  جا سکتی ہے کہ انہیں پڑھنے کا شوق ہوجائے گا۔ ساتھہ ہی رٹنے کی عادت کم یا ختم ہونے لگے گی، ۔ اس طرح بہتر تعلیم کے حصول کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ صرف نصابی کتابوں سے سیکھنے کے عمل میں (جو ہمیشہ اعلیٰ معیار کی نہیں ہوتیں) کمی لائی جا سکتی ہے۔

نوٹ: تعلیم یافتہ والدین اور ترقی پسند پرائیویٹ اسکولوں کو اپنے بچوں یا طالبعلموں کو دنیا کے کسی حصے میں یا ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں سے روشناس کرانے میں کوئی عار نہیں، بشرطیکہ وہ یا ان کے مصنف مشہور اور معروف ہوں۔ تاہم کم آمدنی والے طبقوں کے بچوں کے لیے اس قسم کا مواد نا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں میرے اپنے تجربے سے ایک مثال ہے: میں نے ایک بار ایک پبلشر (جو نجی نہیں تھے) کو پاکستان کی علاقائی زبانوں میں لکھی ہوئی تصویری کہانیاں دکھائیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کہانیاں پسند آئیں اور وہ انھیں شائع کرنا چاہیں گے، بشرطیکہ کہانیوں کے ماحول کو تبدیل کیا جائے: مثلاَ، یہ ضروری ہے کہ کہانیوں کے کردار فقط پاکستانی لباس میں ملبوس ہوں۔ . . یہ اس کے باوجود کہ کہانیاں دنیا بھر سے لی گئی  تھیں اور ان کے کردار ان ہی ممالک کے ملبوسات میں دکھائے گئے تھے جن سے وہ تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح ایک پاکستانی کہانی میں لوگ پاکستانی لباس میں ملبوس تھے۔ اگر یہ رویہ توثیق شدہ ہے تو یہ اس ملک کے کروڑوں بچوں کے ذہنوں کو باقی دنیا سے لاعلم رکھنے کے مترادف ہے۔

دوسری تجویز پاکستان میں پسماندہ خاندانوں کے بچے انتہائی غذائی قلت کے شکار ہیں۔

ایک ایسا فنڈ بنایا جائے جس میں زیادہ سے زیادہ دولت مند اور امیر ترین افراد ماہانہ رقم جمع کریں۔ تعاون کرنے والوں کے ناموں کی تشہیر کی جائے۔اس فنڈ سے حاصل ہونے والی رقم ریاستی اسکولوں کے طلباء کے لیے روزانہ ایک وقت صحت بخش کھانا فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ (جس میں کم از کم ایک گلاس دودھ اور پھل شامل ہوں)۔آمنہ اظفر kahanichaman.pk ویب سائٹ  کی مصنفہ ہیں ۔یہ ویب سائیٹ  چھہ سال سے لے کر چودہ سال کےقارئین کے لیے پانچ پاکستانی زبانوں اور انگریزی میں اورِجنل تحریریں ، اور دنیا کے مختلف حصوں سے دلچسپ  اور معلوماتی ڈیجیٹل مواد، فراہم کرتی ہے۔ (چودہ سال سے زیادہ عمر کے لڑکے اور لڑکیاں  بھی اِ ن تحریروں  سے مستفید  ہوسکتے ہیں)۔