بحران در بحران

تحریر:  زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ : سیما لیاقت

پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی بحران سے  دو چار ہی  رہا ہے۔ فیض احمد فیض سے ایک بار پوچھا گیا کہ ملک کا مستقبل کیا ہے؟  انہوں  نے جواباً کہا: “یہ ایسے ہی چلتا رہے گا”۔ اورہوا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔آج کل  ایک نیا عنصر سامنے آیا ہے جسے انسانیت کے خاتمہ کا نام دیا گیا ہے ۔ جس سےیہ بات یقینی طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ  غریبوں کے حالات بہتر نہ ہونگے۔

اصل مسئلہ معاشرہ کی اخلاقیات کا خاتمہ اور انسانی ضمیر کا ناپید ہونا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں ہماری اقدار مثلاًسماجی انصاف کا احترام، مساوات اور تحفظ ختم ہو گئے ہیں۔ اس سے بھی بری  بات یہ ہے کہ معاشرہ میں طبقاتی تقسیم عام  ہوگئی ہے جس میں دولت مندحضرات  ان غرباء کی عزت و خود مختاری کو پامال کررہے ہیں ۔

عوام جو اس المیہ کے حقیقی متاثرین ہیں وہ اپنے پر مسلط لوگوں سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ انہیں باقاعدہ سوچے سمجھے طریقے کے تحت تعلیم سے محروم کیا جاچکا ہے۔آج پاکستان میں تین کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ۔دوسری طرف اسکول جانے والے بچوں کو رٹا ازم پر ڈال دیا گیا ہے ۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی حکمرانوں کی ناکامی  کی طرف واضح اشارہ ہے ۔جس کے مضراثرات پسماندہ طبقے پر پڑتے ہیں ۔شرحِ پیدائش کم کرنے کی مشاورت اور مانع حمل طریقوں تک رسائی نہ ہونے کے سبب غریبوں کا خاندان بڑھتا ہی جاتا ہے ۔ایسے میں اپنی زندگی کو بہتر بنانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔ آخر میں نظریہ کا سہارا لیتے ہوئے ان غرباء کے عقائد کی مسخ شدہ ترجمانی کرکے انہیں ذہنی طور پر پابنداور عقل سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیاجاتا ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کو اس مشاہدہ  کی رُو سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی 99فیصد آبادی (کم آمدنی والا طبقہ )کی تقدیر محض ایک فیصد آبادی (اشرافیہ)  کےاختیار میں ہے۔ چونکہ سیاسی جماعتوں میں اتحاد نہیں ہے ۔ اس بات نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمتِ عملی اپنانے کا موقع دیاہے۔جو لوگ حالات کو بدلنا چاہتے ہیں ان کے خلاف طاقت کا استعمال ہوجاتا ہے ۔

کم مراعات یافتہ لوگ جُڑے ہوئے نظام کا حصہ نہیں بن پاتے ۔انہیں مزید دَھڑوں میں  تقسیم کرنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ان کے مفادات کی نوعیت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ان کےنفع کا لالچ دیکر انہیں خاموش کرادیا جاتا ہے ۔ اس طرح مسلح افواج کے ارکان، بیوروکریسی، عدلیہ، مقننہ، انتظامی شعبہ، پولیس ، کاروباری طبقہ، زمیندار ، بلڈرز، ٹرانسپورٹرزاور پیشہ ور افراد جو طاقت  کااستحقاق  رکھتے ہیں  وہ  اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھاکر پالیسی سازی میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

بہت سے سرکاری محکموں کا بجٹ مختصر لیکن ان کا عملہ مالدار ہوتا ہے۔یہ تعلیم، ٹیکس، کسٹم اور پولیس جیسے شعبوں میں  عوام کے ساتھ جڑے  معاملات کے ذریعے  خوب ناجائزپیسے بٹورتے ہیں ۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اس لیے پھلتے پھولتے ہیں کہ انہیں کبھی بھی  کسی ٹیکس کی ادائیگی کے دائرہ کار میں  نہیں لایا گیا حالانکہ قانونی طور پر ان پر ٹیکس لگنا چاہیے تھا۔یہی وجہ ہےکہ اشرافیہ  کو دی جانے والی کٹوتی اور رعایتوں  کی وجہ سےریاست کا ایک بڑا نقصان ہورہا ہےکیونکہ ملک کو ٹیکس وصول نہیں ہورہا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق 2022-23 میں   22.4کھرب روپے ٹیکس صرف رعایت کے نام پر نہیں لیا گیا  اس طرح ان اشرافیہ کو ایک تہائی برابر ٹیکس کی چھوٹ ملی ہے جبکہ صوبوں کی تو اپنی کہانیاں ہیں۔

افسر شاہی میں بھی کئی طبقات موجود ہیں ۔ اس کے اعلیٰ افسران اورماتحت عملے کے  درمیان وسیع خلیج  حائل ہے۔ انتظامی  اداروں  کا ڈھانچہ  کچھ اس طرح  وضع کیا  گیا ہے کہ ان کے من پسند لوگوں کو ہی مراعات ملیں ۔

عوام کا کیا ہے؟  بد عنوان  عناصر دھوکہ دہی  سے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ عوام بھی کچھ نقصان پہنچاتے ہیں لیکن  ان کے محدود اختیارات کی بدولت یہ نقصان نسبتاً کم ہے ۔البتہ عوام پر زوروجبرزیادہ نظر آتا ہے۔

یہ حالات مجموعی طور پرغیر یقینی صورتِ حال پیدا کرتے ہیں کیونکہ اس میں باہمی ہمدردی  کا جذبہ سب سے زیادہ پایا جاتا ہے  جو آخرت میں اپنی نجات کے خواہاں  ہونے کے سبب ہوتا ہے۔ پاکستان سینٹر برائے فلانتھراپی کے مطابق مجموعی طور پر ہرسال 40 ارب روپے عطیہ کیے جاتے  ہیں ۔کاروباری طبقہ  16.4 ارب روپے خیرات کرتاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ  سب سے بڑی نیکی غریبوں کو کھانا کھلاناسمجھ لیا گیا  ہے۔کوئی ایسا تعمیری  کام جو ملک میں ٹھوس  تبدیلی لے آئے اس کا تناسب بہت کم ہے ۔ حکومت خودبھی اس طرح کی  تنظیموں کی مدد کرتی ہے ۔یہ نیکی صرف بھوکے کوکھانا کھلانے کی حد تک ہی محدود ہے۔ کراچی میں لنگر خانے کا منظر جا بجاعام ہے ۔لوگ بھوک سے نہیں مرتے البتہ غذائی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں ۔

24کروڑ 10 لاکھ کی آبادی والے ملک کو چلانے کا یہ کوئی دانشمندانہ طریقہ نہیں ہے۔ خیرات پر زندگی گزارنا  بذاتِ خود ذلت ہے۔ جب حکمرانوں کو بھیک کا کٹورا اٹھانے میں کوئی عار نہیں توایسے میں  یہ سب معمول کی بات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن یہ ذمہ داران  انسانی حقوق کی  پامالی اور سماجی  ناانصافی کا بھلا کیا جواز پیش کریں گے جس کا ازالہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے باوجود نہیں ہوسکتا؟

ماخذ:          روزنامہ ڈان

3 مئی 2024 کوشائع ہوا۔