ایک غیر محفوظ ملک

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ : سیما لیاقت

پاکستان نوجوان خواتین کے لیے کتنا محفوظ مقام ہے؟ وزارتِ انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں یہاں خواتین پر تشدد کے 63 ہزار  واقعات درج ہوئے ہیں ۔یہ محض چند تعداد ہے کیونکہ خواتین کی ہراسانی کا ہر معاملہ عوام  کے سامنے نہیں لایا جاتا۔ درحقیقت یہ تعداد اصل کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

پاکستان میں انسانی  تحفظ کی مکمل  اور درست تصویر Trafficking in Persons (TIP)رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔مذکورہ رپورٹ امریکی محکمہ خارجہ 2001سے مستقل شائع کررہے ہیں ۔حال ہی میں 2024 کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔اس رپورٹ   سے پاکستان میں انسانی خریدوفروخت جیسے گھناؤنے جرم  کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا علم ہوتا ہے ۔

بنیادی طور پرانسانی خریدوفروخت  ایک ایسا مکروہ دھندہ ہے جو انسان کے بنیادی و آئینی حقوق کو پامال کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی آزادی کو بھی ختم کر ڈالتا ہے ۔جو لوگ انسانی خریدوفروخت کے بیوپار ہیں ان کا  اولین مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔موجودہ  خود مختار اور آزادمعاشی دور میں انسانی خریدوفروخت ایک عالمی جرم کے طور پر ابھری ہے ۔ اس جرم میں بین الاقوامی مافیا شامل ہے ۔ اس طرح  اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جو گزشتہ زمانے میں انسانی غلاموں کی بدترین تجارت کی  صورت یاددلاتا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان اس مکروہ کاروبار میں ایک راہداری کے طور پر استعمال ہورہا ہے ۔یہ دھندہ یہیں پنپتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کاروبار کوروکنے کی پاکستان  صلاحیت نہیں رکھتا مگر حقیقت یہ ہے کہ  پاکستان اس کاروبار کو روکنا ہی نہیں چاہتا ۔یہ  جنونی زرپرستوں کے لیے غیرقانونی کمائی کا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے، غربت، صنفی عدم مساوات اور ناخواندگی یہ تمام وہ عوامل ہیں جوانسان کو بے بس کرڈالتے ہیں۔

انسانیت کے وجودکے خلاف یہ جرم ہوتا رہا ہے مگر اس جرم کے خلاف زیادہ آوازیں نہیں اٹھائی جاتیں۔یہ بات خاصی حیران کن ہے ۔حالانکہ ا س مکروہ فعل کے متاثر ین کی اتنی بڑی  تعداد ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 20,000 افراد (جن میں سے 80 فیصد خواتین) خریدو فروخت   کے لیے اغوا کیے جاتے ہیں ۔2017 سے 2021 تک کی TIP رپورٹ میں ان اغوا ہونے والوں کی تعداد  12,000 سے بڑھ کر 32,000 تک بتائی گئی ہے۔ 2022 میں جب لاہور کی ایک اغوا شدہ لڑکی کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس نے صرف پنجاب میں 40,500 لڑکیوں کے اغوا ہونے کا انکشاف کیا ۔ یقیناً یہ تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ میرے نزدیک ایک اغواکی گئی عورت بھی بہت ہے۔

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ریاست اور معاشرہ ایک ایسی سماجی برائی کوکیسے قبول کرسکتے ہیں جس کے دیرپااثرات ایک ایسے ملک پر پڑتے ہیں جو اسلامی اساس ہونے  کا دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ  ہماری معیشت، اخلاقی اقدار اور قومی تشخص کی شکل کو بگاڑ ڈالتاہے۔

تازہ ترین TIP رپورٹ ان تمام فکری پہلوؤں کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ 2023 میں  حکومت نے 18,461 مقدمات کی تحقیقات کی جن میں سے 15,022 انسانوں کو جنسی بیوپاراور  3,439 کو جبری مشقت کی غرض سے اغواکیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 6,178 شکایات کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور اس میں سے بھی صرف  10 کو سزا سنائی گئی۔ 2023 کی TIPرپورٹ میں ان اغواہونے والوں کی ایک بڑی تعدادکا انکشاف ہوا تھا۔جس کے بعد مقدمات درج ہونے کے تناسب میں واضح کمی آئی۔ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں  بہت کم سزائیں سنائی گئیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان سزاؤں کی نوعیت کو عوام کے سامنےکیوں نہیں لایا گیا ۔ اگر اس  مکروہ دھندہ کرنے والے بیوپاروں کو قید نہ کیا جائے بلکہ صرف چند لاکھ کا جرمانہ عائد کرکے چھوڑ دیا جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ۔

حکومت نے واشنگٹن کی طرف سے  نشاندہی کرنے والی اس سالانہ رپورٹ کی مستقل اشاعت پر بھلا کیا رد عمل کا اظہارکیا ہے؟2015 میں حکومت نے  کمیشن برائے انسانی حقوق بناکر اس رپورٹ کے نتیجہ میں پیداہونے والے اخلاقی دباؤ کو زائل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ریاست کے پاس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ازخود نوٹس لینے، عوامی بیداری  پیدا کرنے اور انسانی حقوق کے معاملات پر چھان بین  کرنے کا مینڈیٹ ہے۔ یہ ان تمام متعلقہ فکری امور پر حکومت کو سفارشات بھی پیش کرتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان نے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ہے اور نئے قوانین بھی بنائے ہیں جن میں سب سے اہم انسانوں کی خریدوفروخت  کی روک تھام کا ایکٹ 2018 ہے۔

2018میں  نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس (NCHR) نے The Menace of Trafficking/Smuggling: Pakistan’s Response to the Problem نامی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں اس گھمبیر مسئلہ پر توجہ مرکوزکی  گئی ہے ۔انسانی اغوا کی سوداگری کے  مسائل سے نمٹنے کے لیے امن و امان کے ضروری جزئیات کی بھی تشکیل نو کی گئی ہے۔ اس  انسانی تجارت کے بین الاقوامی پہلو دیکھنے کے لیے ایف آئی اے کو تفویض کیا گیا ہے۔

این سی ایچ آر کی تشکیل کے باوجودپاکستان میں انسانی اغوا کی تجارت کے حوالے سے صورتحال خوفناک ہے۔ چونکہ سرکاری حلقوں میں کوئی اس پر بات  ہی نہیں کرتا۔ اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو بے نقاب کرناTIP رپورٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

سال بہ سال TIPرپورٹس نے اس بات کی تجدید کی ہے کہ پاکستان کئی اہم شعبوں میں مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ سنگین جرائم کی تفتیش میں نا اہلی اور کوتاہی پائی جاتی ہے یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مجھے خود اس حقیقت کا تجربہ اس وقت ہوا  جب  میرا واسطہ پولیس سے پڑا۔ حکومت پر مجرموں  کی پشت پناہی کا الزام ہے ۔اس بات سے عوام متنفر ہیں ۔ TIP 2024 میں کہا گیا ہے: “گزشتہ پانچ سالوں سے حکومت نے انسانی اغوا کی واردات میں سرکاری لوگوں کے ملوث ہونے کی مصدقہ رپورٹ ملنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔اس طرح ان مجرموں کے حوصلے بڑھتے گئے اور اس گھناؤنے فعل کے خلاف کوششیں بھی نہ ہوسکیں ۔ سندھ میں مقامی کارندے ان مجبور لوگوں سے اینٹوں کی بھٹی اورکھیتوں میں جبری مشقت کاکام لیتے ہیں ۔”

پاکستان میں پیسہ کے بَل بوتے پر ایک مجرم کو رہائی مل سکتی ہے اس طرح سے ایک اسمگلرباآسانی کروڑ پتی بن جاتا ہے۔اگر ان مجرموں کو مختلف طاقتوں کی حمایت حاصل ہے تو پھر انہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت؟

26جولائی  2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔