تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں والدین اپنی بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اس کی شادی کے متعلق سوچنے لگ جاتے ہیں ۔یہاں شادی شدہ جوڑوں کو اپنی تولیدی صحت کاثبوت دینے کے لیے شادی کے پہلے سال ہی بچہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ زوجین اپنی ازدواجی حیثیت کی سلامتی کے لیے بیٹے پیدا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم اتنا فہم رکھتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی پر بات کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے ۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کامیاب ہو سکتی ہے؟ امکانات خواہ کچھ بھی ہوں۔ ہم میں سے کچھ اہلِ فکر حضرات کو اپنی توجہ اس مسئلہ پر مرکوز رکھنا ہو گی۔حال ہی میں اقوام متحدہ کیWorld Population Prospectus نامی رپورٹ جاری ہوئی ہے ۔یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ دنیا کی اس کثیرآبادی کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے اس خطہ کے وسائل ناکافی ہیں۔تخمینہ کے مطابق دنیا کی آبادی سال 2100 سے پہلے گَھٹنا شروع نہیں ہوگی ۔دنیا کی آبادی اس وقت تک 10.3 ارب ہوجائے گی۔ پاکستان ان 126 ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی اب بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح تقریباً 2.5 فیصد رہی ہے۔پاکستان میں شرح ِ زرخیزی 3.6فیصد ہے۔جبکہ عالمی درجہ بندی میں اوسط 2.2 ہے۔اگرحکومت چاہتی ہے کہ آبادی نہ بڑھے تواس کا مطلب ہے کہ شرحِ تولید 2.1ہوناچاہیئے۔
ان تاریک حالات میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے جو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سلوشنز کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ کی صورت ہے۔یہ خواہش مندزوجین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قابلِ رسائی حکمت عملیوں کی تجویز کرتی ہے۔ ان ضروریات کو جنہیں اس ملک میں قابلِ ذکر توجہ نہیں دی گئی ہے۔اس کے نتیجہ میں بہت سے حمل غیر ارادی طور پر ٹھہرجاتے ہیں اورپھر خواتین اسقاطِ عمل کی طرف رجوع کرتی ہیں ۔اکثریت خواہش مند جوڑوں کو مانع حمل کے طریقے بھی میسر نہیں ہیں۔ سب سے اہم بات ڈاکٹر عدنان اورڈاکٹر عائشہ خان نے مجھے بتائیں ۔چونکہ یہ دونوں ہی مذکورہ رپورٹ کو تیار کرنے والے ہیں ۔ان کا اس بابت کہنا ہے کہ دراصل یہ حکمت عملی اختر حمید خان فاؤنڈیشن کی urban impact labمیں نافذ کی گئی ہے اور اس کے مثبت نتائج دیکھنے میں آئے ہیں ۔
مختصراً یہ کہ متعلقہ رپورٹ نے میرے اس خدشہ کی تصدیق کردی کہ ہمارا خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام وہ خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جو بہت سے نوجوان شادی شدہ جوڑے چاہتے ہیں۔ مختلف ذرائع سے اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار کے ساتھ یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے مشاورتی مراکز ، کلینک، اور مانع حمل ادویات موجود ضرورہیں لیکن ان کا استعمال بہت کم ہے۔
کچھ مشاورتی مراکز ایسے بھی ہیں جہاں پورے دن میں ایک صارف بھی مشورہ کے لیے نہیں جاتا۔نجی شعبے ان سہولیات تک بہتر رسائی کو ظاہر تو ضرور کرتے ہیں مگریہ بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اس پروگرام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔لیکن ان کی خدمات مؤثر نہیں ہیں کیونکہ ان پر خاندانی منصوبہ بندی کے علاوہ بھی اتنی زیادہ ذمہ داریا ں ہیں کہ وہ خواتین کو مانع حمل طریقوں کی ترغیب دینے کے لیے ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ ہی دے پاتی ہیں ۔اسی لیے یہ پروگرام زیادہ بجٹ کے باوجود غیر مؤثر ثابت ہواہے۔ مانع حمل ادویات کی خریداری کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ ان کی درآمد مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اسی وجہ سے اکثر ان ادویات کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔ ظاہر ہےجو نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عدنان ان حالات کے پیشِ نظر سفارش کرتے ہیں کہ معلومات اکٹھا کرنے، صارفین کو تلاش کرنے، افادیت کی رسائی کو بڑھانے اور صارفین کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیاجائے۔ نجی شعبہ کو بھی مانع حمل ادویات درآمد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور حکومت متعلقہ سہولیات فراہم کرنے کے بجائے سرمایہ سازی کے کردار پر توجہ دے۔
پاکستان میں اس وقت 1کروڑ 10 لاکھ خواتین صارفین میں مانع حمل اضافہ کی شرح (Contraceptive Prevalence Rate) 34فیصد ہے۔ اگلے سال تک پائیدار ترقی کے مقررکردہ اہداف کو پانے کے لیے تولیدی عمرسے گزرنے والی 2کروڑ شادی شدہ خواتین کو مانع حمل ادویات کا استعمال کرنا چاہیے۔ موجودہ نظام کے تحت یہ ایک ناقابِل حصول ہدف ہے کیونکہ ایک سال میں صرف 50 لاکھ مزید خواتین مانع حمل طریقے استعمال کرنے والوں میں شامل ہوں گی۔
ڈاکٹر عائشہ نے اپنے پروجیکٹ میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے ۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے ان اعدادوشمار میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ڈاکٹر عائشہ پہلےمرحلہ (15ماہ کے لیے2019 ) میں 2لاکھ 78ہزار کی آبادی میں 36ہزار خواتین کے ساتھ CPR کو 33فیصد سے 44فیصد تک بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ انجیکشن اور IUCD(Intra Uterine Contraceptive Device)کاایک صارف پر صرف 1,100روپے کاخرچہ ہواہے۔ دوسرے مرحلہ (2سالوں کے لیے 2023) میں 8لاکھ مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا۔جن میں1لاکھ 26ہزار خواتین تھیں ۔حاصل ؟CPR حیران کن طور پر 51 فیصد تک بڑھ گیا۔ دوسرے مرحلے میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیاجس کی بدولت CPRکی شرح غیر معمولی تھی۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ اگر تمام شہری کچی آبادیوں کو یہ ٹیکنالوجی پر مبنی پروگرام فراہم کر دیا جائے تو یہ 3کروڑ 7لاکھ لوگوں تک پہنچ جائے گا۔ اور یہ تعداد کافی مستحکم ہے۔
کیا خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات تک رسائی میں اضافہ لوگوں کو ‘چھوٹاگھرانہ’ پیغام کو قبول کرنے کا سبب بنے گا؟ ڈاکٹر عدنان کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔کیونکہ اس پروگرام کے ذریعہ جو دباؤ ڈالا گیا ہے ۔اس دباؤ کوہٹالینے کے بعد یہ لوگ مانع حمل ادویات کا استعمال کیے بغیر جنسی تعلق قائم کر لیں گے۔ طریقہ بدلنا ہوگا۔ میں مانتی ہوں۔ بنیادی طور پر خواتین کو بااختیار بنانا ہوگااور ان ننھی جان کے حقوق کے بارے میں انہیں شعور دینا ہوگا جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی ترقی کو کُلی طور پر دیکھا جائے۔ ہمیں تعلیم کو فروغ دینا ہے ،صحت کی دیکھ بھال، معقول ذریعہ معاش اور سب کے لیےمناسب رہائش گاہ فراہم کرنا ہے۔ ان بنیادی ضروریات کو پورا کیے بغیرلوگوں کا اپنی زندگی کو سدھارنے پر کوئی اختیارنہیں رہتا۔ کیا ایک آدمی جو اپنے مستقبل سے خود بے خبر ہے کیا وہ اس بات کی پرواکرے گا کہ سیارے کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے؟
23گست 2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ماخذ: روزنامہ ڈان