تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
حال ہی میں شائع ہونے والا موناخان کا دلچسپ کالم(FOGO: Fear of getting old) “Forego the FOGO”تھا۔جس میں بہت کچھ قابلِ فکر تھا۔خاص کر موناخان کا یہ کہنا کہ بڑھاپے کا خوف پروان چڑھانے میں آرائشِ حسن و زیبائش کاسامان بنانے والوں کا کردار بہت اہم ہے۔یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ نوعمری کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ مونا آج نیوز روم میں معمرحضرات کے بارے میں لکھتے ہوئی کہتی ہیں کہ ان کے تجربے کی قدر نہیں کی جاتی۔ نوجوانی کی دادوتحسین ہی FOGOکی تخلیق کا سبب بنا ہے۔
نسلوں کے درمیان یہ فاصلہ میں کم عمری سے دیکھتی آرہی ہوں جو ہر پیشے اور عائلی زندگی میں موجود رہا اور اس خلا کو بہت مہذب طریقے سے سنبھالا جاتا رہاہے۔جب میں سنِ رسیدگی کی عمر کو پہنچی تو مونا جیسے نوجوان ساتھیوں اور اس موجودہ نسل کے بیشتر لوگوں نے مجھے بہت عزت دی میرے ساتھ تعاون کیا جس کے لیے میں ان کی شکر گزار ہوں۔ ظاہر ہے یہ نسل FOGO کا شکار نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نےاپنی عمر کے تقاضوں کےمطابق کام کیا اور اس شائستگی کا مظاہرہ کیا جو انہوں نے سیکھی تھیں۔ اگر بنی نوع انسان کو ترقی کرنی ہے توانہیں اس تبدیلی کو بہت ٹھوس انداز میں قبول کرنا ہوگاورنہ ہم ویسے ہی ہوجائیں گے جیسا پتھر کے زمانے میں تھے ۔
تاہم آج مجھے معمر افراد کو درپیش مشکلات کی فکرہے۔ ان کےمسائل پر بحث عام ہونی چاہیےکیونکہ عمومی طور پر لوگ کہنہ سالی پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
ایک موضوع درازئیِ عمر اور اموات کا بھی ہے ۔جب پاکستان وجود میں آیا تواس دوران ایک بڑی تعداد میں ہجرت ہوئی ۔آبادی کی اتنے بڑے پیمانے پر منتقلی کے نتیجہ میں سماجی اتھل پتھل ہوئی ۔1950 تک ملک کی آبادی میں کسی حد تک ٹھہراؤ آنے کے بعد( وکی پیڈیا کے مطابق) پاکستان میں پیدائش کے وقت اوسط متوقع عمر مرد حضرات میں 36.2 اور خواتین کے لیے 33.4 سال تھی۔ پھردرازئیِ عمر کا راز جاننے کے لیے ایک عالمی دوڑ شروع ہوئی ۔
زمانہ قدیم کی عالمی دریافتوں، تحقیق اور مطالعات میں حیرت انگیز ادویات اور طبی تکنیکی مہارت کا آغاز ہوا۔ جس نے دنیا بھر میں حفظانِ صحت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔حفاظتی ٹیکوں نے حیرت انگیز طور پر لڑکپن ،نوزائیدہ بچوں،دورانِ زچگی اور پیدائش کے وقت بلندشرحِ اموات کو بہت کم کردیا ہے۔ مثال کے طور پر 2023 میں پاکستان میں اوسط شرحِ پیدائش مردوں میں 65 سال اور خواتین میں 69.7 سال تھی)حوالہ: (worldmeter.info)۔
عمر میں اضافہ ایک آفاقی رجحان رہا ہے۔ 2023 میں ہانگ کانگ میں اوسط متوقع عمر مردوںمیں 83 اور خواتین میں 88.6 سال تھی۔ تاہم پاکستان میں زیادہ متوقع عمر شاید ہی دیکھی گئی ہو۔ 2.5 فیصد کی بلند شرحِ پیدائش اور بڑھتی عمر نےشماریاتِ آبادی کے کثیرالجہتی مسائل پر توجہ دینے کے لیے زوردیا ہے ۔ کیونکہ اس سے ملک میں معاشی اور سماجی مسائل نے جنم لیا ہے۔ ایک جرمن ڈاکٹر کے اِس مشورہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی “اپنی زندگی کو دراز کرنے کے بجائے صحت مند بنائیں ” ہماری عادت یہی رہی ہےکہ ہم صحت کے معاملہ میں احتیاط کے بجائے علاج معالجہ کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں ۔
پچھلی کئی دہائیوں کے دوران بزرگ حضرات کے لیے مالی معاونت کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ہمارے پاس نوجوان طبقہ کی صورت ایک بڑی نسل ہےجس پر دہرابوجھ ہے۔ یہ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی خیال رکھتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے انہیں کوئی سماجی تحفظ میسر نہیں ۔نوجوان طبقہ کی اتنی بڑی تعدا د ہمارا اثاثہ ہونا چاہیئے تھا لیکن اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اب وہ خود ایک ذمہ داری بن گئے ہیں ۔حکومت نوجوانوں کی بڑی تعداد کو معقول تعلیم اور مناسب روزگار دینے میں ناکام رہی ہے۔ غیریقینی کی یہ کیفیت نوجونوں میں بے اطمینانی کا باعث ہے۔
جہاں تک معمر افراد کا تعلق ہے، انہیں بنیادی طور پر اپنےاموراور صحت کی دیکھ بھال کے لیے کسی مددگار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی مصروفیات کے لیے کچھ مشاغل ہونے چاہیئیں جس سے ان کی ذہنی صحت بھی برقرار رہے۔ کچھ خوش نصیب لوگ پنشن حاصل کرتے ہیں لیکن ملکی معیشت کی تباہی کے سبب پنشن کی یہ رقم کوڑیوں کے مترادف ہے۔
ایسا نہیں کہ حکومت ان تمام مسائل سے لاعلم ہے۔ 2014 میں سندھ اسمبلی نے سینئر سٹیزنز سوشل ویلفیئر ایکٹ منظور کیا جو 2016 میں نافذ ہوا لیکن اس پر کبھی عمل نہ ہوسکا کیونکہ اس کے قیام کے ساتھ ہی کونسل کے سربراہ کا انتقال ہوگیا اور یہ قانون صرف کاغذوں کی حد تک ہی رہ گیا۔اسی پر بات کرنے کے لیے 2019 میں لیگل ایڈ سوسائٹی عدالت میں گئی۔عدالت میں اس کی کچھ سماعتیں بھی ہوئیں ۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ کو بھی دیگر معاملات کی طرح پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ہمارے یہاں عام طور پر یہی ہوتا آیاہے۔
اس طرح ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ کچھ ایسے سولات اٹھاتے ہیں جو ہم سب کی امیدوں کو پوراکرنے میں قابلِ عمل تجاویز پیش کرتے ہیں۔اگر ان معاملات پر باہمی گفتگو کی جائے تو یہ اس ذہنی تناؤ سے نجات دلائے گی جو اپنے ساتھ تنہائی کو لیکر آتی ہے۔عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی مباحثہ کے نتیجہ میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کی جاتی ہیں ۔
زندگی اور موت سے متعلق کچھ حساس مسائل جیسا کہ تسکین بخش ادویات، صحت اور علاج سے متعلق ان کی مرضی کو وصیت جانا جائے۔
مجھے امید ہے کہ یہ مضمون نوجوانوں میں FOGO کو فروغ نہیں دے گا۔ میں انہیں یاد دلانا چاہتی ہوں کہ بوٹوکس ان کے خوف کا علاج نہیں ہے۔زندگی کے بارے میں جو نقطہ ءِ نظر ہے وہ بہت اہم ہے ۔
ماخذ: روزنامہ ڈان
31مئی 2024 کوشائع ہوا۔