سیکھنے کا نیا طریقہ

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

پاکستان کے لوگوں میں مطالعہ کا رواج عام نہیں ہے۔ بہت کم لوگ کتابیں پڑھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں اشاعت کی صنعت  ترقی نہیں کرسکی ہے جبکہ دوسرے ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں کتب فروخت ہوتی ہیں  ۔پاکستان میں تعلیمی نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہے  ۔چونکہ تعلیم اور مطالعہ دونوں ہی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔جب تعلیمی ماحول ہی نہ ہوتو مطالعہ کا رحجان کیسے ہو۔

اس کا مثالی حل یہی ہے کہ   مطالعہ اور تعلیم دونوں کو یکجا کرتے ہوئے بچے کو پہلے کتابوں سے متعارف کروایا جائے اور پھراس کےبعد  انہیں لکھنا پڑھنا سکھایاجائے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ بات مضحکہ خیز  معلوم ہو لیکن یہ ہرگز بھی احمقانہ خیال نہیں ہے ۔وہ لوگ جو کم عمری سے ہی  کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے  ہیں۔جنہیں پڑھنے میں لطف آتا ہو وہ اس خیال کی توثیق کریں گے۔ یہاں یہ  بات قابلِ فکر ہے کہ کتابوں، لائبریریوں اور تعلیم کو کس طرح منظم طریقے سے  آپس میں مربوط کیا جا سکتا ہے۔ میری ایک دیرینہ سہیلی  جوکتاب ،تعلیم اور زبان کے حوالے سے   میری خاصی ہم خیال رہی ہیں۔وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ “تعلیم حاصل کرنے کا پہلا اور اہم قدم مطالعہ ہے” میری سہیلی  (نا م نہ ظاہر کرنے کی شرط پر) کہتی ہیں کہ ہماری توجہ لائبریری پر ہونی چاہیے۔ مگر اس  بات کے برعکس بہت کم اسکولوں میں  فعال لائبریری کے ساتھ کُل وقتی لائبریرین موجود ہے۔ یہاں تک کہ  تعلیم سے متعلق  بحث و گفتگو میں بھی لائبریری کا ذکر نہیں ہوتا ہے۔

“بچوں کی مطالعہ میں دلچسپی پیدا کرنے” کے لیےضروری ہے کہ  جلد از جلد ان کی دوستی کتابوں سے کروادی جائے۔میری سہیلی جو خود بچوں کی کتابوں کی معروف  مصنفہ ہیں۔ وہ اپنی “خوابوں کی لائبریری” کو اس خوبصورت تصور کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ اسکول کے سب سے اچھے یعنی ایک وسیع، “ہوادار اور خوب روشن” کمرہ کو لائبریری بنانا چاہیے۔ اس کی بیٹھک  آرام دہ  مثلاً چٹائی ،کُشن قالین ہوں۔میز کرسیاں چاہے تعداد میں کم لیکن آرام دہ ہوں ۔ لائبریری میں تحریری اور ڈرائنگ کا مواد  بشمول ایک سفید بورڈ، مارکر، پنسل ،کاغذ اورایسےجدید آلات   پر مشتمل ہوجوبچوں کو  کہانی سنانے اوراس روایت کو فروغ دینے کے لیے موزوں ہوں۔

کتابیں  بچوں کی اپنی زبان میں ہوں ۔جوبہت خوبصورتی سے شیلف میں اس طرح سجی ہوئی ہوں کہ ان  تک بچوں کی پہنچ آسان ہو ۔ لائبریری کا سب سے اہم جز بچوں کے لیے ایک ایسی لائبریرین کا انتظام ہے جسے کتابوں سے عشق  اوران کا انداز بچوں کے ساتھ دوستانہ ہو۔ دیواروں کو رنگ برنگی تصویروں سے آراستہ کیا جانا چاہیے۔ایک دیوار ایسی ہو جو بچوں کی بنائی گئی تصاویر کے لیے مخصوص ہو تاکہ بچے وہاں اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرسکیں ۔لائبریری کا مقصد یہ ہو کہ بچہ پرسکون ماحول میں اپنی مرضی کے مطابق نہ صرف مطالعہ کرے بلکہ اپنی تخلیقی سوچ سےکچھ تصاویر بھی بنائے ۔

اس طرح کی  لائبریری میں بچہ کیا سیکھے گا؟ یقیناًوہ اپنی طبیعت میں خود اعتمادی ، کام کرنے کی لگن اور کتابوں سے محبت حاصل کرے گا۔ اگر لائبریرین بچے کو بہت نرمی سے لائبریری کا استعمال سکھائے تو بچہ بہت جلد  لائبریری کے آداب  سیکھ جائے گا ۔لائبریری میں مختلف سرگرمیوں کا انتظام ہو۔ بچے جو کتابیں پڑھتے ہیں لائبریرین ان کتابوں پر بحث و مباحثہ کی نشست کا انعقاد کرے ۔لائبریری کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے مشہور لوگوں کو  اپنی زندگی کی کہانیاں سنانے کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے۔ مضمون لکھنا،تحریری مواد کی تصاویر بنانا اور کتابوں کا جائزہ لینا بچوں کو لائبریری کی طرف متوجہ کرے گا۔

میری سہیلی کے خیا ل میں  لائبریری کی ایک اور خصوصیت بچے کی غذائیت  ہے۔ وہ سنجیدگی سے مشورہ دیتی ہیں کہ اسکول کے تمام بچوں کو ہر روز کچھ نہ کچھ خوراک  جیسا کہ دودھ اور ایک ابلا ہوا انڈا مہیاکیا جائے۔بچوں کے اسکول میں بیہوش ہونے کے واقعات  ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں  کیونکہ وہ گھر سے ناشتہ کرکے نہیں آتے ۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان کے تقریباً 50 فیصد بچے غذائی قلت کا شکارہونے کے سبب کم وزن  ہیں۔ایسے میں  انہیں خوراک مہیاکرنے کاخیال بہترین سوچ ہے۔

میری سہیلی کی ان تجاویز کو ہر صوبے کے ایک اسکول میں تجرباتی بنیادوں پر آزمایا جا سکتا ہے۔ پرائمری کلاسوں میں روزانہ لائبریری کاایک پیریڈ ہونا چاہیے ۔وہ پیریڈ ‘عام’ اسکولنگ جیسی سختیوں سے پاک ہو۔اس  عمل کے نتائج کا اندازہ ایک سال بعد لگایا جا سکتا ہے۔­­اسکول میں لائبریریوں کا مستقبل بہت خوش آئند ہےمجھے یقین ہے کہ  اگر اس کی حقیقی روح کے ساتھ  یہ تجربہ کیا جائے تو مذکورہ منصوبہ بہت کامیاب رہے گا۔ یہاں کچھ دلائل کا ذکر لازمی ہے  جن کی  بدولت یہ امید افزا نتائج دکھائے گا۔

ماریا مونٹیسوری وہ خاتون ہیں جنہوں نے ابتدائی بچپن کی تعلیم کا وہ فلسفہ پیش کیا جس کی بدولت تعلیم کی دنیا میں  بہت سے ممالک میں انقلاب برپا ہوا۔وہ بچے کی زندگی کے پہلے چھ سالوں پر بہت زیادہ زوردیتی ہیں۔ اس عمر میں بچہ کا دماغ ہرچیز جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ  بچے کے اُس لاشعور دماغ کی بات کرتی ہیں جو چھ سال کی عمر میں ہی شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اس عرصے میں بچہ جو کچھ تجربہ کرتا ہے ،سیکھتا ہے وہ اس کی نفسیات کا حصہ بن جاتاہے۔اگر بچے کے پاس کوئی کتاب ہے تووہ اسے پڑھنے کی طرف مائل ہوگا جو اس کے لیے ایک اچھامطالعاتی تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہر بچہ میں خود سے سیکھنے کی عادت پروان چڑھے گی ۔ یہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور خودکو کھوجنے کی جبلت کے ساتھ ساتھ اس کے تجسس کو بھی متحرک کرے گا۔ مونٹیسوری کا خیال ہے کہ اگر ان بچوں کی صحیح رہنمائی کردی جائے تو یہ استاد کے بغیر بھی پڑھنا سیکھ جاتے ہیں۔

یہاں بیان کیے جانے والے واقعہ میں قارئین کو غوروفکر کی دعوت ہےکہ  ایک بچہ جو لائبریری آنا پسند نہیں کرتا تھا مگر ایک شفیق لائبریرین نے اسے لائبریری آنے کے لیے آمادہ کیا تو شیلف میں سجی کتابوں کو دیکھتے ہی اس نے بے ساختہ کہا “کتنی پیاری کتابیں ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ یہاں بھی میری نصابی کتب کی طرح کتابیں ہونگیں جن سے میں پہلے ہی اکتاگیا ہوں۔”

ماخذ:          روزنامہ ڈان

17مئی 2024 کوشائع ہوا۔