معذرت

تحریر:  زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

ہم اپنے موجودہ  حالات میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ اپنے ماضی کو پسِ پشت ڈال دیتے  ہیں۔ لیکن1970-71 کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ پچاس سا ل سےزائد عمررکھنے والوں کی  یادوں میں تازہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئےتھے۔

لہٰذا بنگلہ دیش کے کسی بھی تناظر میں گفتگو ہو توجہ ان سالوں کےواقعات پر ہی مرکوز ہوتی ہے  ۔ان واقعات کا خاتمہ ملک ٹوٹنے پر ہی ہوا۔ایسی ہی گفتگو  پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز، کراچی کے  سمپوزیم میں ہوئی۔جوبنگلہ دیش کے سیاسی بحران پر منعقد کیا گیا ۔ مقررین نے  بدامنی کی وجہ ،عبوری حکومت کودرپیش مسائل اوراس ملک کی موجودہ  پیش رفت پر توجہ مرکوز کی  ۔ ہمیں پاکستان کے سیاسی ڈھنگ اور اس کے سابقہ ​​مشرقی دھڑمیں  یکسانیت اور فرق کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

شرکائے محفل کاتمام تر انہماک بنگلہ دیش کے ماضی   یعنی ہماری تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔یہ چیز قابلِ فہم مگر حیران کن تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اس ملک کے بارے میں  ادراک  حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بنگالیوں کے نقطہ نظر سے 1947-1971 کے سیاسی تنازعات پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔

اس وقت قدرےحیرانی ہوئی جب شرکاء میں سے ایک خاتون  نے پاکستانی حکومت کا بنگلہ دیشی عوام سے  ماضی کی غلطیوں پرمعافی نہ مانگنے کا سوال اٹھایا ۔ ڈاکٹر معصومہ حسن پروگرام کی صدارت کررہی تھیں انہوں نے وضاحت کی کہ  2002 میں اپنے دورہ ڈھاکہ میں جنرل پرویز مشرف نے قومی شہداء کی یادگار پر مہمانوں کی کتاب میں لکھا تھا کہ “ان بدقسمت سالوں میں ہونے والی زیادتیاں افسوسناک ہیں”۔ انہوں نے لوگوں سے درخواست بھی  کی کہ وہ ماضی کو عظیم جذبے کے ساتھ  دفن کر دیں۔

میں یہاں بنگلہ دیش کے تناظر میں “میں معذرت خواہ ہوں” جملے  کا تجزیہ نہیں کروں گی کیونکہ اس مسئلے پر گاہے بگاہے  بحث ہوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یقین نہیں ہے کہ  موجودہ حالات میں اس کے فوائد اور نقصانات کے واضح تجزیہ کو سراہا بھی جائے گا۔

یہ کہنا کافی ہے کہ سفارتی اور سیاسی معاملات  میں  تہذیب کو دیگر سماجی خوبیوں کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔2016میں  سفیر رفیع الزمان صدیقی ڈھاکہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے طور پر تعینات تھے ۔وہ  PIIA کے مقررین میں خود بھی شامل تھے۔انہوں نے ان اخلاقیات کے اثرات پر  اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا۔ اگست 2017 میں  اس بغاوت کو 42سال ہوگئے ۔اس موقع پر انہوں نے دھان منڈی میں مجیب الرحمان کی یادگار پر پھول چڑھائے۔صدیقی صاحب نے بتایا کہ  “میرے تجزیہ  کا بنگلہ دیشیوں خاص طور پر عوامی لیگ کی قیادت نے بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا” ۔

یہاں میں عام زندگی میں معافی مانگنے کے رواج کے بارے میں لکھنا چاہوں گی ۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی نجی گفتگو میں بھی ‘شکریہ’ اور ‘معذرت’ جیسے شائستہ الفاظ کے استعمال میں فراخدلی سے کام نہیں لیتے۔ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر موجود موادمیرے مشاہدے کی تصدیق کرتاہے۔ اس لیے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتی کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں کا اپنے ممالک کے مقامی باشندوں سے  معافی مانگنے کا ذکرہمارےکتنے لوگوں نے سناہوگا۔ وہ  خطہ جو دولتِ مشترکہ کے پاس  ہے ۔ انگلستان کے لوگوں کے آنے سے پہلے  وہ زمین خالی نہیں تھی ۔مقامی  لوگ ان زمینوں پر پہلے ہی آباد تھے ۔باہر سے آنے والے غیر ملکیوں نے یہاں کی ثقافت کو بدل دیا ۔یہ ایک طرح کا نوآبادیاتی عمل تھا ۔

اس زمین پر بسنے والوں نے مقامی مالکان کو بے گھر کیا ۔ ان کی عزتِ نفس پامال کی ۔­­ان کے مال و اسباب اور وسائل پر قبضہ کیا ۔سب سے زیادہ بہیمانہ اور غیر انسانی حرکت یہ کی گئی کہ والدین سے   بچوں کو زبردستی اس بہانے سے چھین لیا گیا کہ ہم انہیں انگریزی زبان سکھائیں گے ،انہیں   ‘مہذب’ بنائیں گے تاکہ بچے سماجی طور پر ہم آہنگ ہوسکیں ۔جب لوگوں میں آگاہی اورحقِ خودداداریت  عام ہوئی تو انہیں احساس ہوا کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جس کی انہیں تلافی کرنی ہوگی۔

1990 تک  مقامی لوگوں کی ناراضگی بالکل واضح تھی اور ماضی کی کڑواہٹ کو مٹانے کے لیے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ حاکم اورمقامی باشندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد معافی نامہ کی شرائط اورمالی معاوضے کی رقم پر اتفاق ہوا۔

گزشتہ چند سالوں سے تینوں حکومتیں مختلف گروپوں سے معافی مانگنے کی تقریبات کا انعقاد کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جوماضی پر اب بھی خفا ہیں۔لیکن ہمارے ہاں تاثر یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان اب پہلے جیسی تلخی نہیں رہی ہے۔ اختلاف  پیدا ہونے کی صورت میں اس کے تدارک کے لیےقانونی  طریقہ کار موجود ہے۔

6 ستمبر   2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ماخذ:          روزنامہ ڈان