والدین کی فکرمندی

تحریر: ​زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت

پاکستان کےسرکاری اسکولوں کاسب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ تعلیمی صورتحال ہے۔یہاں اس مسئلہ پر عوامی حلقوں میں گفتگو شروع کرنے کی ایک اور کوشش کی جارہی ہے۔ اس بار پہل پاکستان ویمن فاؤنڈیشن فار پیس کی فعال سربراہ نرگس رحمان نے کی ہے جنہوں نے اس موضوع پر سیمینارکا سلسلہ شروع کیا ہے۔اس سلسلہ میں اب تک دو سیمینار ہوچکے ہیں جبکہ تیسرا جلد متوقع ہے ۔

تقریباً درجن بھر مقررین نے ملک میں ‘جمود کا شکار’ سرکاری اسکولوں کی بدحالی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سیمینار میں مختلف مسائل پر بحث رہی تاکہ شرکاء کی بہتر طریقے سے آگاہی ہوسکے۔
اس کے باوجود اب تک پوچھے جانے والے مختلف سوالوں کا جواب نہیں مل سکا ہے ۔ ‘سول سوسائٹی’ حکومت کے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہے؟’ یہ کام سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے لوگ ہی انجام دے سکتے ہیں۔ تمام مقررین نے مسائل کا تجزیہ اور اس کے حل کی نشاندہی خاصی وضاحت سے کی ۔ ان حضرات کا یہ بھی کہنا تھا کہ پالیسی ساز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس تعلیمی نظام میں خرابیاں کیا ہیں اور انہیں دور کرنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ان دونوں سیمینار کے ماہر مقررین نےیاتو صاحبِ اختیار لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے یا پھر اب وہ حکومت کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کی شراکت داری میں مصروف ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یہ ماہرین حکومت کو قابلِ عمل مشورے دینے میں کیوں ناکام رہے ہیں ۔حقیقت تو یہی ہے کہ ایسے مواقع پر کوئی کھل کر اظہار ِخیال نہیں کرتا ۔
تعلیمی زبوں حالی پر توجہ دینے کے لیے ہمارے حکمرانوں کی سیاسی قوت ارادی میں واضح طور پر ایک بڑا فقدان نظر آتا ہے ۔جس کی دو وجوہات ہیں ۔ اول یہ کہ عوام کو علم اور شعور سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ عوام ان پڑھ ہونے کی وجہ سے تنقیدی سوچ اورمسائل حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو۔ساتھ ہی خاندانی منصوبہ بندی کو بالکل نظر انداز کردینا، ‘انگریزی ذریعہ تعلیم’ پر زور تاکہ بچہ کچھ سمجھ ہی نہ پائے اور ستم یہ کہ حد سے زیادہ مذہبی لبادے کا فروغ بھی عوام کی سوچ کو بانجھ بنادیتا ہے ۔جس کے نتیجہ میں وہ اپنی غربت کو اپنی قسمت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔تشدد کے سامنے کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کرتے اور فرمابرداری کو اپنا فرض گردانتے ہیں ۔اس طرح ان کے ذہنوں کو قابوکرنا اوران کا استحصال آسان ہوجاتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو مسلط رکھنے کی دوسری وجہ یہی ہے کہ اس طرح سے دیگر لوگوں کو بھی لوٹ مار اور بدعنوانی کے مواقع ملیں گے۔ پیسہ اس تیل کی طرح ہے جو مشین کو رواں رکھتا ہے ۔بالکل اسی طرح بہت سے غیر قانونی کاموں کو بھی پیسوں سے ہی زندہ رکھا گیا ہے۔ یوں توتعلیمی نظام میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایماندار، محنتی، اہل اور باضمیر بھی ہیں لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بدعنوان لوگوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ بدعنوانی کی داستانیں بے تحاشہ عام ہیں ۔مقررین نے ان کہانیوں پر بھی توجہ دلائی۔لوگ پیسوں کے بل بوتے پر ‘استحقاق’ اور ‘فوائد’ خریدتے ہیں ۔چونکہ یہ رتبے اور عہدے صلاحیت پرنہیں بلکہ پیسوں سے حاصل ہوتے ہیں اسی لیے ان کی قدر نہیں کی جاتی۔ بدعنوانی کی بدولت تعلیمی میدان میں نااہلی جنم لیتی ہے۔ امتحانی بورڈ پیسہ بنانے کی بڑی فیکٹری ہیں اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں تعلیم کو زندہ رکھنا ہے تو اس نظام کو ازسرِ نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اب ہم اپنے پہلے سوال کی طرف واپس لوٹتے ہیں ۔یہاں میں ڈاکٹر اختر حمید خان کی روش کا ذکرکرونگی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔اس پروجیکٹ کی بنیاد مقامی معلومات اور اس سے مستفید ہونے والوں کے اعتماد پر قائم تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا فلسفہ تھا کہ ہر کمیونٹی کی اپنی قیادت ہوتی ہے اور اس فلسفہ کےحامی جو مقامی نہ ہوتے ہوئے بھی اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں ۔انہی ماہرین کی مدد سے کمیونٹی اپنے مسائل خود حل کرسکتی ہے ۔ اس طرح اورنگی کا نکاسی آب کا نظام دنیا بھر میں کامیابی کی داستان بن گیا۔
یہاں اس مثال کا مطلب تعلیم کے تناظر میں اسکول کی انتظامی کمیٹیوں (SMC)کے اختیارات کی تنظیم نو اور توسیع کرنا ہے تاکہ وہ باقاعدہ طور پران اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں جو کمیونٹی کے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتےہیں۔ ہر اسکول میں ایک SMCہونا چاہیے جووالدین ،بزرگوں اور اس کمیونٹی قیادت پر مشتمل ہو جس کمیونٹی سے بچے اسکول آتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اسکول ہیڈ مسٹریس ، ہیڈماسٹر اسکول عملہ کے ارکان اور محکمہ تعلیم کے کچھ نمائندے (خاص طور پر ضلعی تعلیمی دفتر) بھی شامل ہوں۔
سب سے بڑھ کرعوامی حلقوں میں سے ایسے معتبر لوگ جو اسکول گود لیتے ہیں ۔انہیں SMC میں شامل ہونے اورثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے شریک کیا جاناچاہیےتاکہ ان تعلیمی بے ضابطگیوں میں اس تیسرے فریق کا کردار مصالحت آمیز ہو۔امید ہے کہ اس سے اسکولوں کے نظام میں بہتری آئے گی کیونکہ ان گود لینے والوں کی موجودگی بدعنوان اور ناکارہ لوگوں کی حیثیت کو بے اثر کر دے گی۔
گود لینے والے اپنے کچھ فنڈز اسکول کو اضافی فوائد فراہم کرنے میں لگا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک یا دو اساتذہ کی تنخواہیں اور غذائی قلت کے شکار بچوں کو ناشتہ مہیا کر سکتے ہوں۔ لائبریرین کے ساتھ ساتھ لائبریریوں کے لیے کچھ عطیات کی صورت میں بھی مدد کریں ۔ ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ یہ خیال قابل عمل ہے۔جسے پورا کرنے کی کوششیں ہونی چاہئیں ۔ ہر کوئی بدعنوان نہیں ہوتا۔ ایمانداروں کو دیانتداری سے کام کرنے کے لیے اخلاقی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مگرسوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

12 جولائی 2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ماخذ:​روزنامہ ڈان ​​