زبیدہ مصطفیٰ
حال ہی میں مجھے ایک بے حد اطمینان بخش تجربہ ہوا جس سے بچوں کے حوالے سے مجھے امید ملی۔ میں نے پاکستان مونٹیسری ایسوسی ایشن کراچی کے تعاون سے پانچ ہفتے کے ایک کورس میں بطور مبصر پانچ لیکچرز میں شرکت کی۔ ’اسکول واپسی‘کی اس مشق نے ہمارےبچے کے مستقبل پر میرا اعتقاد مضبوط کردیا کیونکہ صرف بچے ہی پاکستان کو بچا سکتے ہیں۔
ان لیکچرز نے مجھے اپنا جائزہ لینے کی تحریک دی۔ میری سمجھ میں آیا کہ ہم اپنے بچوں اور اس طرح اپنے ملک کو کس طرح مایوسی سے دوچار کررہے ہیں۔ ولیم ورڈزورتھ نے لکھا تھا’’بچہ آدمی کا باپ ہے‘‘۔ لیکن ریاست اور معاشرہ ہمارے آنے والے کل کے شہریوں کی روح کو تباہ کررہا ہے۔
یہ سچائی اس وقت فوری طور پر مجھ پر آشکار ہوئی جب میں نے زبردست مقرر اور صاحب ِعلم خاتون طیبہ سلیم کا پہلا لیکچر سنا۔ان کا زور مونٹیسری کے فلسفے پر تھا لیکن میرے ذہن کی دوسری کھڑکی ہمارے اسکولوں کی موجودہ حالت کو دیکھ رہی تھی۔ کورس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کو ایک ڈاکٹر ماریہ مونٹیسری (1870ء تا 1952ء) کی ضرورت ہے جو ایک اطالوی فزیشن، نیورلوجسٹ اور ماہر تعلیم تھیں۔ مونٹیسری ٹرینرز کی تجربہ کار ٹرینر اور مونٹیسری فلسفے کی تسلیم شدہ حامی اور کارکن فریدہ اکبر نے تقسیم اسناد کی تقریب میں ان الفاظ میں دریا کو کوزے میں بند کردیا: ’’بچے سے رہنمای ؑحاصل کیجےؑ ۔ مونٹسری کا فلسفہ بھی یہی کچھ کہتا ہے—بچے کا مشاہدہ کرو اور ایک محفوظ ماحول میں اسے اپنی جبلتوں کا جائزہ لینے کا موقع دو تاکہ وہ خود کو تعلیم دے سکے۔ یہ شاندار تجربہ روم کے ایک متوسط طبقے کے علاقے میں ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل شروع ہوا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام کبھی پرانا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی مضبوطی کا منبع بچے کی فطرت کے ساتھ اس کے داخلی تعلق سے ہے جو ہزارہا سالوں س ے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔۔ ڈاکٹر مونٹیسری ایک فعال کارکن تھیں جنہوں نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے دور دور سفر کیا۔ 1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم چھڑی تو وہ ہندوستان میں تھیں۔ انہیں نظر بند کردیا گیا اور انہوں نے یہ عرصہ بچے کے بارے میں اپنے فلسفے کی اشاعت کےلیے استعمال کیا۔ اسی طرح مسز گل منوالا ان کی طالبہ بنیں اور پاکستان میں مونٹیسری سسٹم کی بانی بن کر ابھریں۔
مونٹیسری فلسفے کے مطابق جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی بنیادی ضرورت تحفظ ہوتا ہے۔ وہ ایک ’’داخلی توازن‘‘ کے ذریعے یہ ضرورت پوری کرتا ہے جو اسے توازن اور مسرت کا ایک احساس دیتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے بچے کو اپنے آپ کو اس برادری کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے جس میں پیدا ہوا ہے اور جس کا وہ لازمی جز ہے۔ اس کا ’’جذب کرنے والا‘‘ ذہن اسے وہ تمام چیزیں جذب کرنے میں مدد دیتا ہے جو وہ اپنے ماحول میں سنتا یا دیکھتا ہے۔ اس کا اندرونی ترتیب کا احساس بھی ڈھالنے کے اس عمل میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ والدین اور اساتذہ بچےکو استحکام اور استقلال دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جو اس کے احساس تحفظ کے لیے لازمی ہیں۔
جب بچہ اس جذباتی نشوونما کا تجربہ کررہا ہوتا ہے تو وہ جسمانی، ذہنی اور عقلی طور پر بھی نمو پارہا ہوتا ہے۔ وہ بنیادی اصول جس پر والدین اور اساتذہ کو عمل کرنا چاہیے یہ ہے کہ کوئی نئی مہارت—پڑھنا، لکھنا یا زبان—اس وقت متعارف کرائی جائے جب بچہ اس کے لیے تیار ہو۔
نمو اور تحفظ کے مظاہر میں زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہی وہ مدت ہوتی ہے جب بچہ اپنے ساتھیوں اور اپنی زندگی میں موجود بالغ افراد کے ساتھ ابلاغ شروع کرتا ہے اور اپنی سوچ کا اظہار اور اپنی ضروریات بیان کرتا ہے۔
یہ بات مجھ پر واضح ہوگئی کہ ہمارا روایتی تعلیمی نظام ان اصولوں کے خلاف کام کرتا ہے جو بنیادی طور پر بچے کے احساس ِتحفظ کو مضبوط بناتے ہیں۔ ہمارے اسکول اس مفروضے کے ساتھ آغاز کرتے ہیں کہ بچہ کچھ نہیں جانتا اور استاد اپنا علم اسے منتقل کرتا ہے۔ ہمارا سخت نظم و ضبط پر مبنی طریقہ کار بچے کو کوئی آزادی یا اپنے طور پر عمل کرنے کی گنجائش نہیں دیتا۔ بچے کو ایک طرح سے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی ستون رٹّا ہے۔ ناقدانہ فکر کو شروع ہی میں کچل دیا جاتا ہے۔
ہمارے نظام میں ایک اور خامی یہ ہے کہ یہ مسابقت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کامیابی ، جسے جسے پیسے کے لحاظ سے ناپا جاتا ہے ،کا آسان راستہ ڈھونڈا جاتا ہے ۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے امتحانات میں بدعنوانی کیوں ہوتی ہے۔ انگریزی بولنے والوں کی ایک جنت کی تلاش کا جنون شارٹ کٹ کے لیے ہماری محبت اور ہماری بے صبری کا نتیجہ ہے۔اس طرح بچہ اپنی زبان سے محروم ہوجاتا ہے اور اسے اچھی انگریزی بھی نہیں آتی۔ وہ گنگ ہوکر رہ جاتا ہے۔
طیبہ نے اپنے لیکچر اردو میں دینے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ ابتدا میں انگریزی کے حامیوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا لیکن پھر اس فیصلے کو قبول کرلیا۔بعد میں انہوں نے مجھ سے اعتراف کیا کہ انہیں تمام لیکچرز سمجھنے میں قطعی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ طیبہ نے مجھے بتایا کہ اس سے پہلے ان کی کسی کلاس میں اتنا زیادہ تبادلہ خیال نہیں ہوا کیونکہ طالبات کو لیکچرز سمجھ میں آرہے تھے اور وہ بہت معقول سوالات کرسکتی تھیں ۔ وجہ یہ تھی کہ زبان کی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔ اس کے باوجود اکثریت نے اپنے اسائنمنٹ انگریزی میں لکھے۔ میں ان کی مہارت پر تبصرہ نہیں کرسکتی۔
شرکا کی جانب سے کچھ اہم تبصرے: ’’میں علم التعلیم سیکھنے کی توقع کرکے آئی تھی لیکن مجھے اس سے زیادہ ملا—بچے کی تفہیم۔‘‘
’’اگر میری بچی کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو مجھے معلوم ہے کہ وہ ذمہ دار نہیں۔‘‘
’’والدین کے فرائض کی بہتر انجام دہی کے کورس میں باپوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔‘‘
’’میں ابتدا میں اردو کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی لیکن اب میں اس کا احترام کرتی ہوں اور اسے بطور زبان استعمال کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جس نے پچھلے ہفتے بچوں سے زیادتی کے بارے میں اپنا موقف بیان کیااسے نوٹ کرنا چاہیے: بچے کو اس کی زبان سے محروم کرنا بچے سے زیادتی کے مترادف ہے۔
ماخذ: ڈان0 3جولایؑ
**