مشکل وقت کا ساتھی

تحریر:  زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی تحفظ نہ ہو وہاں کے لوگ سنگین  حالات میں محدود ذرائع کے ساتھ  کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ گھرانے کا واحد کفیل جب   غیر متوقع طور پر اپنی ملازمت سے محروم ہو جائے ،ایک نوجوان عورت جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں وہ بیوہ ہوجائےیا خاندان کے کسی فرد کو کوئی سنگین بیماری لاحق ہوجائے ۔امراء کے پاس غیریقینی حالات  سے نمٹنے کے لیےبچت اور بیمہ پالیسی ہوتی ہیں ۔ لیکن  چونکہ غریبوں کےوسائل محدود ہوتے  ہیں۔اسی لیے چاروناچار وہ بھیک مانگ سکتے ہیں، قرض لے سکتے ہیں یا چوری کر سکتے ہیں۔

یہ اس ضِمن  میں ہے کہ سماجی میل ملاپ کے نظام  (سوشل نیٹ ورک سسٹم) نے بہت اہمیت حاصل کرلی ہے۔کچھ اہم  برادریاں پاکستان سے پہلے بھی اپنا  وجود رکھتی تھیں جیساکہ اسماعیلی اور  میمن برادری وغیرہ البتہ کچھ برادریاں نسبتاً نئی ہیں۔جو 1947کے بعد ایک رسمی شکل میں سامنے آئیں ۔کیونکہ جب ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے پاکستان ہجرت کی تو ایسے وقت میں انہیں مددکی ضرورت تھی۔یہ سچ ہے کہ جب ریاست شہریوں کو معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی تب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ان برادریوں نے عملی طور پراپنا کردار اداکیا  ۔ایسی ہی  ایک معروف برادری سوداگرانِ دہلی ہے۔

یہ برادریاں کثیرالمقاصد اورمشکل فرائض انجام دیتی ہیں۔ میں نے ان برادریوں کے متعلق انجمن اتحاد المسلمین، پرتاب گڑھ ]اَودھ [کی رکن سیما لیاقت سےجانا۔ سیما کے والد کا انتقال 1974 میں ہوا۔وہ انجمن  کی شکر گزار ہیں کیونکہ اس انجمن نے ان کی والدہ کو اُس وقت سہارا دیا جب وہ اپنے چار چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوہ ہوگئی تھیں ۔انجمن نے ماہانہ ایک وظیفہ مقرر کیا جو بغیر کسی تعطل کے اِ ن کے دروازے تک پہنچ جاتا تھا۔یہاں تک کہ جب ان کا بڑا بیٹا برسرِ روزگارہوا تو انہوں نے  انجمن کو  شکریہ کے ساتھ مالی امداد بند کرنے کی درخواست کی۔ سیما اپنی یادداشت  دہراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ “جب میری والدہ نے وظیفہ ختم کرنے کی درخواست کی تو کمیٹی صرف یہ دیکھنے  گھر آئی کہ  اس انکار کی وجہ انجمن کی اپنی  کوئی انتظامی کوتاہی تو نہیں ہے ” ۔

انجمن ایک شہری علاقے کی برادری ہے ۔ حالانکہ اس کے بانی ارکان کا تعلق اَودھ کے ضلع پرتاب گڑھ کے مختلف  گاؤں سے رہا ہے۔ اس کی بنیاد آباؤاجداد پر نہیں بلکہ  ایک ہی علاقے کے گھرانوں پر مشتمل تھی۔

ملک کی تقسیم کے بعد سَو سے زائد پرتاب گڑھیوں نے کراچی ہجرت کی تاکہ مسلم لیگ کی طرف سےبہتر روزگار کے دعویٰ کو جانچ سکیں ۔ اس کے بعد اِن کے خاندانوں کی ہجرت ہوئی۔ اِسی اثناء میں چند بزرگوں نے   ایک پرتاب گڑھی خاتون کو کراچی کی سڑک پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو یہ حضرات  پریشان ہوگئےاور کچھ سوچ بچارکے بعد انہوں نے 1955 میں ایک فلاحی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیاتاکہ کسی کو بھی ایک دوسرے کے دروازے پر بھیک نہ مانگنی پڑے۔ ایک  اورمقصد یہ بھی تھاکہ برادری کو اِن رشتہ داروں سے جوڑا جائے جن سے ان کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ اس کےبعدانجمن آگے بڑھتی چلی گئی۔

ان دنوں انجمن کی رکنیت 6ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ جس میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ،سماجی ومعاشی طور پر اچھی  شناخت رکھنے والے افراد شامل ہیں۔  انجمن  کی شروعات ان پڑھ لوگوں سے ہوئی تھی جس میں زیادہ تر مالی ، چپراسی، ڈرائیور اور چوکیدار تھے۔آج  انجمن اپنی برادری کی  99 فیصد شرحِ خواندگی پر فخر یہ اظہار کرتی ہے۔ برادری میں کئی  پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ایک معروف ویٹرنری(جانوروں کے ڈاکٹر)، کئی ایم فل کے علاوہ  ایک ایم این اے، دو ایم پی اے اورکئی وکلاءو انجینئر ہیں۔ برادری  بہت سے لوگوں کی  مفلسی سے امارت تک  کی کہانی ہے۔

میں  انجمن کے اپنی مدد آپ کے جذبے سے بہت متاثر ہوئی ۔ان کی توجہ انسانی خدمت پر مرکوز ہے۔ شعبۂِ خدمت خلق اس کا سب سے اہم شعبہ ہے۔ میں نے تنظیم کے صدر خلیل قریشی سے سوال کیا کہ آپ کو اپنی برادری کی کس بات پر  سب سے زیادہ فخر ہے تو انہوں نے جواب دیا”ہم نے  پچھلے 69 سالوں سے بغیر کسی وقفہ کےحق دار کی فہرست میں شامل افراد کو ہر ماہ یکم  تاریخ کومستقل مالی اعانت  فراہم کی ہے۔آج انجمن سے 82خاندان ہر ماہ  10لاکھ روپے کااجتماعی وظیفہ وصول  کر رہے ہیں۔

قریشی صاحب پورٹ قاسم میں کمرشل منیجر ہیں۔ وہ  صحت کی دیکھ بھال کے  60 بستروں پر مشتمل اَودھ جنرل ہسپتال اور اَودھ پبلک اسکول کا ذکر بھی بڑے مان سے کرتے ہیں جو  400 بچوں کو تعلیم فراہم کرتا ہے – جن میں سے 100 طلباء کو فیس میں رعایت دی جاتی ہے۔

انجمن اپنے فنڈز خود اکٹھا کرتی ہے۔ ممبر شپ فیس محض  ایک روپیہ ہے جو کہ 1955میں مقرر کی گئی تھی۔لیکن  برادری اور برادری سے باہر کے لوگ بھی جو انجمن کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ اپنی زکوٰۃ، فطرہ اور دیگر عطیات انجمن کو فراخ دلی سے دیتے ہیں ۔

انتظامیہ جمہوری طریقے سے تشکیل دی گئی ہے۔ جسے شہر (کراچی ) میں 19 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں انجمن کا علاقائی  نمائندہ اپنےممبران کو خدمات پہنچانے کی نگرانی  کرتاہے ۔ وارڈنز  تین رکنی کونسل کو جواب دہ ہے  جس میں صدر، جنرل سیکرٹری اور فنانس سیکرٹری شامل ہیں جو آڈیٹر کی مدد سے کام کرتے ہیں ۔ انجمن کے انتخابات ہر دو سال بعد ہوتے ہیں۔

وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والی تقریبات میں برادری کی طرف سے بھرپور شرکت کی جاتی ہے جس سے ان کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں ۔ رکنیت مکمل طور پر رضاکارانہ ہےجو ممبران کے درمیان  بھائی چارے کے مضبوط احساس کا مظاہرہ ہے۔یہ سب ایسے وقت میں ہورہاہے جب ریاست  اپنی عوام کو ملکیت کااحساس دلانے میں ناکام رہی ہے۔انجمن اپنی سوچ میں جدت لاتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نسل در نسل ہونے والی تبدیلیوں کو  مؤثر طریقے سے منظم کیا ہے۔ ایسے میں  کچھ تعجب نہیں کہ برادری کے تمام بچے اسکول جا رہے ہیں اور ایک انتہائی پدرانہ معاشرے میں خواتین کی آزادی اور بااختیار بنانے کا عمل آسانی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

حکومت ایسی برادریوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت  ان کا خیر مقدم کرتی ہے کیونکہ یہ برادریاں نہ صرف  غیر سیاسی ہیں بلکہ وہ ریاست کی طاقت کو بھی چیلنج نہیں کرتیں۔ دولت مند برادریاں قومی معیشت میں اپنا بہت زیادہ حصہ ڈالتی ہیں۔ لیکن 241 ملین کی آبادی والے ملک میں مختلف   برادریوں کی رکنیت مٹھی بھر ہے۔یہ تعداد سماجی تحفظ کی صورتِ حال برقرار رکھنے میں ناکافی ہے۔

14 جون 2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔