تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
لگتا ہے کہ ہماری اخلاقیات کے ٹھیکیدارخواجہ سراؤں کے وجود کو پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک بڑاخطرہ گردانتے ہیں ۔ایک قابل ذکر طبقہ اس بات کو ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ 10,478 (مردم شماری 2023) خواجہ سراکی ایک چھوٹی سی تعدادبھلا کیسے دوکروڑ چالیس لاکھ کی آ بادی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل کرتے ہیں۔
کچھ حضرات اپنی عقلِ کُل کے زورپر طرح طرح کے فرضی حالات کا تصور کرلیتے ہیں ۔وہ حالات جن کے بارے میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قوم کے اخلاقی تانے بانے کو تباہ کر دیں گے۔ دوسری طرف یہ بات حیران کن ہے کہ جو لوگ غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں کا سہارا لیتے ہیں وہ ان حضرات کے غضب سے بچ جاتے ہیں ۔ان حضرات نے اس وقت کوئی کانفرنس نہیں بلائی نہ ہی کوئی مذمتی بیان دیا۔جب خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہو، چھوٹی بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر انہیں قتل کردیا جاتا ہو اور کروڑوں ڈالر کے غیر قانونی کاروبار میں ہزاروں نوجوان خواتین کو اغوا کرکے انہیں بین الاقوامی منڈی میں فروخت کردیا جاتا ہو۔کیااس طرح کے حساس معاملات پر ان کی یہ خاموشی ان گھناؤنے جرائم کو قبول کرنے کا عندیہ تو نہیں؟ لیکن جب خواجہ سراؤں کے آئینی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ ان لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیتا ہے۔کیا یہ کچھ عجیب نہیں؟
حال ہی میں کراچی میں ہونے والے ایک کنونشن میں کچھ حضرات نے خواجہ سراایکٹ 2018 ( حقوقِ تحفظ ) کی کچھ دفعات کویکسر مسترد کردیا جو پچھلے چھ سالوں سے نافذ ہے ۔ یہاں اس کی اہمیت بتانے کے لیے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ قانون اسلامی نظریاتی کونسل تسلیم کرچکی ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ نے 2012 میں صنفی شناخت کے معاملات میں حقِ خود ارادیت کے اصول کو نافذکیا اور عدالتی حکم کے مطابق نادرا نے شناختی کارڈ میں ان کی جنس کا اندراج شروع کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ان چند مراعات کوسَلب کرنا ہے جو خواجہ سرانے سخت جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں۔یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ شدت پسند لوگوں نے 2018 کے ایکٹ کو چیلنج کیا اور اسے غیر اسلامی قراردیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی ۔ 2023 میں عدالت نے صنفی خود ارادیت کی شق کو مسترد کرتے ہوئے ایک فیصلہ دیا اورخواجہ سراکی صنفی شناخت کو میڈیکل بورڈ کے ذریعہ کروانے پرزوردیا۔خواجہ سرااس اقدام کو اپنے وقار کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں۔
اب یہ قابلِ ذکر لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں ‘دھوکا’ دیا گیا ہے اور یہ کہ ‘قوم ایک بڑے فتنے کا شکار ہے’۔ یہ سپریم کورٹ کے خلاف بہت سنگین الزامات ہیں جنہوں نے ایک ایسے وقت میں خواجہ سرا کےحقوق کے سلسلہ میں قدم اٹھایا ہے جب بین الاقوامی سطح پر صنفی شناخت کے قوانین میں خودارادیت کا رجحان ہے۔ TGEU(خواجہ سرا یورپ) کے مطابق ” خود ارادیت کااصول صنفی شناخت میں مقبول ہورہا ہے۔ صنفی خود ارادیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خواجہ سراآسان اورقابلِ رسائی انتظامی عمل کے ذریعہ سرکاری دستاویزات پر صنفی شناخت اور نام تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ تبدیلی خواجہ سرا کی خود ساختہ صنفی شناخت پر مبنی ہے۔ کسی تیسرے فریق کی اس میں ضرورت نہیں ہے۔”
چونکہ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے۔ اس لیے اب کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی اپیل واپس لے۔ یہاں تک کہ وہ خواجہ سرا طبقے کے قانونِ حقوقِ تحفظ کے خلاف تحریک شروع کرنے کی دھمکی دیتے ہیں ۔ کنونشن کے شرکاء کے مطابق یہ قانون ہم جنس پرستی اور فحاشی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک آڑ ہے۔
یہ خواجہ سرا طبقے کے لیے آزمائشی گھڑی ہے ۔2021 کے بعد سے اب تک خواجہ سراکی ایک بڑی تعداد کو ماراگیا ہے ۔یہاں تک کہ ان کے خلاف نفرت کی مہم عروج پر پہنچ گئی ہے۔ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ یہ خوف ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ 2018 کے ایکٹ کی منظوری کے بعدانسانی حقوق کے علمبردار خواجہ سراؤں سے متعلق آگہی پیدا کرنے کے لیے اپنی مہم کو جاری رکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ان کے خلاف سماجی نفرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ابھی باقی ہے۔ بہت سی مخصوص جماعتوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے اوران خواجہ سراؤں کے خلاف نفرت کو خوب ہوادی ہے ۔
مجھے افسوس ہوتا ہے ۔میں نے پاکستان میں خواجہ سرا تحریک کی حامی بندیا رعنا کو فون کیا تو وہ بہت رنجیدہ معلوم ہوئیں ۔انہوں نے گلوگیر لہجہ میں بتایا کہ “حال ہی میں تین خواجہ سرا کو قتل کیا گیا ہےاور کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے قاتل کون تھے؟ قاتل اس کے اپنے بہن بھائی تھے، جنہیں اپنی بہن سے کوئی پیار نہیں تھا۔ “بندیا کو لگتا ہے کہ خواجہ سرا تحفظ کے قانون کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اسے کمزور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان حالات میں ایسے والدین کوسزا ملنی چاہیے جو اپنے خواجہ سرا بچے کو بالغ ہونے سے پہلے ہی بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں ۔افسوس کہ یہاں کچھ قدامت پسند لوگ ان کی زندگی کو مزید مشکل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ اصل خطرہ سماجی تعصب اور ابہام سے ہے ۔ پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے اس ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
بندیا پرسکون رہتی ہیں ۔ ان کے پاس اپنے اذیت دینے والوں کے لیے جواباً کوئی سخت الفاظ نہیں ہیں ۔بہر حال وہ خدا کی تخلیق ہے۔انہیں جس چیز سے محروم کیا گیا ہے اس کے بدلے انہیں تدبر اور ملنساری عطاکی گئی ہے۔ مجھے اروندھتی رائے کی کتابMinistry of Utmost Happiness کے مرکزی کردار (جو خواجہ سرا ہوتی ہے) کے الفاظ یاد آگئے: “لفظ ہجرا … کا مطلب ایک جسم ہے جس میں ایک مقدس روح رہتی ہے۔”
28 جون 2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔