تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
اناٹول لیوین کی کتاب Pakistan: A Hard Countryسال 2011 میں شائع ہوئی ۔اس اشاعت کےتیرہ سال بعد پاکستان اب بھی ایک ‘دشوار’ ملک ہے۔لگتا ہے کہ یہاں ہر کوئی اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ دولت کی تقسیم کی طرح مشکلات بھی غیر مساوی طور پر بٹی ہوئی ہیں ۔ہم اپنے اقتصادی مسائل کا تجزیہ مالی لحاظ سے کرتے ہیں لیکن مشکلات کاایک روپ انسانی چہرہ بھی ہوتا ہے جوسماجی نفسیاتی خطرات کا سامنا کرتا ہے۔ جس پر صاحبِ دولت توجہ ہی نہیں دینا چاہتے۔
زرعی شعبے کی طرف نظر دوڑائیں۔جو پاکستان کی خام ملکی پیداوار میں 22.9 فیصدحصہ ڈالنے والا سب سے زیادہ منافع بخش شعبہ ہے۔ سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار یہی شعبہ فراہم کرتا ہے جس میں مزدور طبقہ کا تناسب 37.4 فیصد ہے (پاکستان اکنامک سروے2023-24)۔ ہر وہ آدمی جوکھیتی باڑی کرتا ہے ۔اسے اس کام میں اپنے گھر والوں کی بھی مدد لینی پڑتی ہے۔البتہ ان کی خواتین کسی گنتی شمار میں نہیں ہیں کیونکہ ان کا کردار دکھایا ہی نہیں جاتا۔
مشکل اس پہلے دن سے شروع ہوجا تی ہے۔ جب زمیندار اورکسان کے درمیان معاہدہ طے ہو تا ہے۔ جو ایک انتہائی غیر منصفانہ سودا ہے۔ پاکستان میں زمیندار شاید سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقے میں سے ایک ہیں، جنہیں خاص فوائد اور سہولیات حاصل ہیں۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تقسیم کے وقت زمینداروں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی جائیداد کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ اسی وجہ سے پہلی دہائی تک پاکستان میں زمین سے متعلق ترمیمی اقدامات پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ ہندوستان نے اصلاحات کا نفاذ شروع کردیا تھا۔ 1959 اور پھر 1972 میں ترمیمی اقدامات کا اعلان کیا گیا لیکن یہ زیادہ مؤثر نہیں تھے کیونکہ ان اقدامات کو دولت مند خاندانوں نے یکسرطور پر نظر انداز کردیا تھا۔اب زمینی اصلاحات کے تصور کو دفن کیا جاچکا ہے۔وفاقی شرعی عدالت نے اسے 1989 میں غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں حکومت چاہے جس کی بھی ہو۔ان زمیندار کو بے پناہ سیاسی اختیارات حاصل ہیں۔
زمینداروں نے کسانوں کے ساتھ حقارت آمیزسلوک رواں رکھتے ہوئے اپنی دولت بچارکھی ہے۔ مثال کے طور پر شمالی سندھ میں زیادہ تر سودے فصل کی تقسیم کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین کی کھیتی باڑی کسان کو کرنی ہوگی لیکن جب فصل کاٹی جائے گی تو زمیندار کے ساتھ آدھی آدھی بانٹنی ہوگی۔اصل مسئلہ اس معاہدہ کی شرط ہے۔ کیونکہ کسان کو تمام اشیاء مثلاً بیج، دو نوں قسم کی کھاد، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر ،فصل کاٹنے کی مشین ،بیج کی خریداری یہاں تک کہ اس کی کاشت کا خرچہ بھی صرف کسان ہی کو اداکرناہوتا ہے۔ اگرکسان کو یہ سب اخراجات اکیلے برداشت نہ کرنے پڑیں تو ان کی آمدنی دگنی ہوجائے ۔ایک اندازے کے مطابق ایک ایکڑ اراضی پر کسان سالانہ 50,000 روپے کماتا ہے۔ کاٹی گئی فصل کا آدھا حصہ ہی انہیں ملتا ہے۔اس میں سے کچھ فصل تو وہ اپنے استعمال کے لیے ذخیرہ کرلیتے ہیں باقی نقد رقم کے حصول کے لیے فروخت کردیتے ہیں ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دلال کسان بھائیوں کابڑی بے رحمی سے استحصال کرتے ہیں۔
کسانوں کو حکومت کی طرف سے کوئی رعایت نہیں ملتی ۔کیونکہ حکومت میں بھی زمیندار طبقے کی اکثریت ہے۔ دیہی علاقوں کے بچے مناسب تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ مردم شماری 2023 کے مطابق ملک کی اکثریت یعنی 61 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہےلیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اسکولوں کی تعداد اس کے موافق نہیں ہے۔ قصبوں اور شہروں میں زیادہ اسکول نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی آبادی دیہات سے کہیں کم ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کسانوں کے بچوں کو اُس طرح کی تعلیم نہیں دی جاتی جو ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف مزاحمتی طاقت بن جائے۔
مصائب کے اس سمندر میں کچھ ایسے بھی ہمدردی کے جزیرے ہیں جو عزت اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اسی جزیرہ میں سے تین سال قبل جس منصوبہ کو نیک نامی اورشہرت ملی وہ علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ خیرو ڈیرو (ضلع لاڑکانہ )کا ٹریکٹر منصوبہ ہے۔جو عابد حسین نامی کسان سے منسوب ہے ۔عابد حسین جگر کی دائمی بیماری میں مبتلا تھے۔ اپنی خرابئِ صحت کے باوجود عابد کے مسکراتے چہرہ پر وقار اور حوصلہ پایا جاتاتھا ۔جب اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہوتی تو وہ ہمیشہ سب سے آگے رہتے تھے۔
ایک بار نالے پر ایک چھوٹا پل گر گیا۔یہ پل کسانوں کی آمدورفت ،فصل اورسامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بار بار یاد دہانی کے باوجود حکام نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ایسے میں عابد نے ہی رضاکارانہ طور پر اپناکردار اداکیا اور کسانوں کو متحرک کیا۔ ٹرسٹ نے تعمیراتی سامان مہیا کیا اور یوں ان رضاکاروں کی بدولت پل کی مرمت ہوگئی۔ یہ عابد ہی تھا جس نے یہ تجویز پیش کی کہ ٹرسٹ ٹریکٹر خریدیں اور کسانوں کو آسان شرائط پر ٹریکٹر بطورِ قرض دیاجائے۔ اس طرح ان کسانوں کے جو اخراجات ہوتے ہیں ا س پر کسی حد تک قابو پاتے ہوئےاس کی لاگت کافی کم ہوجائے گی ۔ اب ٹرسٹ کے پاس دو ٹریکٹر ہیں جن سے براہ راست کسانوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ جن کسانوں کو ٹریکٹر کی یہ سہولت مہیا کی جارہی ہے وہ اپنی معقول بچت کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے زمیندار جن پر برائے نام ہی ٹیکس لگتا ہے وہ اپنے اطراف کی غربت پر بھی نظر ڈالیں ۔ یہ زمیندار بھی کچھ عطیات دیکر ایک ایسا فنڈ بنائیں جیسا کہ کاروباری حضرات نے سماجی ذمہ داری(Corporate social responsibility) ادا کی ہے ۔ اس کی بدولت زمینداروں کےرویوں میں ان کسانوں کے لیے نمایاں تبدیلی نظر آنی چاہیے جو ان کے لیے دولت پیدا کرنے کا سبب ہیں ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت کا چہرہ پرعزتِ نفس اوروقار نظر آنا چاہیے۔ زمین کا سینہ چیرنے والوں کو اپنے حقوق کی تلاش ہے خیرات کی ہرگز نہیں۔
9 اگست 2024 ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ماخذ: روزنامہ ڈان
https://www.zubeida-mustafa.com