تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
اگست کو ڈاکٹر ماریہ مونٹیسوری کی سالگرہ تھی۔ پاکستان مونٹیسوری ایسوسی ایشن (Pakistan Montessori Association)نے اس دن اپنی تمثیل کو اظہارِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک پروقارتقریب کا انعقاد کیا ۔پروگرام کا آغاز ایسوسی ایشن کی بانی اور معروف معلمہ کی خدمات سے کیا گیا۔بعدِ ازاں پاکستان میں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی روشن مثالوں کی قدرومنزلت پر بات ہوئی جس میں گُل مِن والا اور دیگرساتھیوں کاذکر ہوا۔پروگرام میں فریدہ اکبر کو خصوصی طورپر خراج تحسین پیش کیا جانا تھا۔اساتذہ کی تربیت سازی میں ان کا بڑا کردار ہے۔طوفان (اَسنا)کی وجہ سے پروگرام ملتوی کرنا پڑااور یہ تقریب بالآخرایک ہفتہ بعد منعقد کی گئی ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ طوفان فطرت کی طرف سے ایک انتقام تھا ۔اس میں ہمارے لیےتنبیہ تھی کہ قانونِ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں ۔یہ مثال بچہ کی تعلیم پر بھی صادق آتی ہے ۔ جب اسکول کا تعلیمی نظام درست نہ ہو تو وہ بچوں میں ‘روگردانی ‘کا سبب بنتا ہے ۔یہی وہ اصطلاح ہے جسے ڈاکٹر مونٹیسوری استعمال کرتی رہی ہیں ۔
میں ڈاکٹرمونٹیسوری کی کتاب The Absorbent Mind (کتاب کا اردو ترجمہ :جاذبِ ذہن)کا حوالہ دینا چاہوں گی تاکہ یہ حقیقت آشکار ہوسکے کہ ہم اپنے بچوں کو سمجھ ہی نہیں پائے ہیں ۔ “تعلیم وہ نہیں ہے جو استاد بچوں کو سکھاتاہے بلکہ ]یہ [قدرت کا ایک ایسا عملیہ ہے جو بچہ اپنی حرکات و سکنات سے خود سیکھتا ہے ۔بچہ صرف استاد کی آواز سن کر تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ وہ اطراف کے ماحول کو اپنے اندر] جذب[ کرتاہے ۔”
مونٹیسوری فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ بچہ اپنی ‘تعمیر’ خود کرتا ہے اوریہی تعمیری عمل اس بات کا ضامن ہوتاہے کہ وہ بڑا ہوکر کیسا مرد یاعورت بنے گا۔ استاد کا کردار بچہ کی شخصیت سازی میں معاونت فراہم کرنا ہے ۔ استاد وہ ماحول تیار کرتا ہے جہاں بچہ مختلف تجربے کرتا ہے ۔ڈاکٹر مونٹیسوری کا زور بچے کی نفسیاتی ارتقاء پر ہے جو پیدائش کے پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے۔
یہ ایک خود مختار عمل ہےجس کی مکمل پاسداری کرنا چاہیے۔ ہر بچہ مختلف ‘رحجانات’، صلاحیت اورکمزوریوں کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ۔ بچہ کو اس بات کا شوق دلانا چاہیے کہ وہ اپنی جبلت کو کھوجتے ہوئے خود اکتسابی کے مراحل طے کرے۔نظم و ضبط اور یکسانیت کے نام پر بچہ کو روکے رکھنے کی کوشش نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کو ‘لکیر کا فقیر’ بنانا تعلیم میں ان کےتجسس کو ماردیتا ہے۔
فریدہ اکبر اپنے طالب علموں کوکہا کرتی تھیں کہ ” بچے کی پیروی کرو” یہ سننے میں بہت دلچسپ جملاہے ۔میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ہم ڈاکٹرمونٹیسوری کے کچھ اصول اپنا کر ابتدائی تعلیم کو بچوں کا حامی نہیں بناسکتے؟
مارچ 2023 میں، میں نے کم آمدنی والےطبقہ کے 10 بچوں کے ساتھ ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔محلہ کے قریبی اسکول میں مجھے ایک کمرہ کی سہولت بھی مل گئی ۔جہاں میں نے “آؤکھیلیں مرکز” کے نام سے آغاز کیا ۔ ہفتے میں تین دن دوپہر میں دو گھنٹے کی کلاس ہوتی تھی۔میری دوست حوا محمد ایک بہترین ٹیچر ٹرینر رہی ہے۔جس نے معروف تعلیمی و تربیتی اداروں سے اپنی ماہرانہ صلاحیتوں میں اضافہ کیا ۔وہ چھ ماہ کے لیے میرے اس تجربہ میں شامل ہونے کے لیے بخوشی راضی ہوگئیں ۔ہمارا سب سے بڑا اعزاز یہی تھا کہ فریدہ اکبر یہاں بھی ہماری رہبر اور سرپرست کے طور پر موجود رہیں۔میں نے ان سے التماس کی تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ سازگار تعلقات بنانے میں حوا کی رہنمائی کریں ۔حوااس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ فریدہ اکبر کے ساتھ گزارا ہوا وقت ان کے لیے ایک بہترین اکتسابی تجربہ تھا ۔ “انہوں نے بچوں کی نفسیات سے متعلق میرےفہم میں اضافہ کیا۔ اس کام کے لئے ان کا جذبہ قابل ذکر ہے۔ جب بھی انہیں ضرورت محسوس ہوتی وہ لازمی مرکز میں موجود ہوتیں۔”
ہم نے بہت سا تدریسی مواد اکٹھاکیا ۔جس میں بچوں کے لیے بہت سی رنگین تصویری کتابیں، فلیش کارڈز اورکاغذ پنسل شامل تھے۔ حوااس بات کو یقینی بناتی کہ ہر بچے کی حرکات و سکنات میں آزادی ہو تاکہ اس کی دلچسپی برقرار رہے اور یہی تعلیم کا بنیادی اصول ہے ۔ حوا نے اس بات کو بھی برقرار رکھا کہ بچہ نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، نرمی سے بولیں، بچے پر مسلط نہ ہوں ۔ بس جوسکھانے کی ضرورت ہے وہ عمل دہرائیں بچہ خود آپ کی نقل کرے گا۔ اگر بچے کوکسی عمل سے روکنا ہو تو اسے ‘منع’ مت کرو۔ بس اس کی توجہ کسی اور دلکش چیز کی طرف مبذول کرادو۔ خود ایک نرم گو ہونے کے ناطے حوا نے بہت تندہی کے ساتھ کام کیا۔
بچے اپنے ارد گرد کے ماحول سے بہت جلد مانوس ہوگئے۔بہت ہی کم مدت میں وہ تیز رفتاری سے کام کرنے لگے۔ وہ اردو میں اپنے تحریر شدہ ناموں کی شناخت کرنے لگے اوراپنی مرضی کے مطابق کتابوں کا انتخاب کیا کرتے جو حوا انہیں پڑھ کر سناتیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ جس کام کوبھی کرنے کا ارادہ کرتے اس میں ان کی بے پناہ دلچسپی ہوتی۔ہر بچہ انہماک سے بیٹھ کر کام کیا کرتا ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ وہ کھُل کراپنی بات کا اظہار کرنے لگے ۔کیونکہ ہماری بات چیت اردو میں ہی ہوتی تھی اور یہی زبان وہ وگھر میں بھی بولتے تھے ۔
ہم نے قدرت کو اپنا کام کرنے کا وقت دیا کیونکہ کوئی جلدی نہیں تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب بچے کی انگلی اور آنکھ کی پتلی میں ہم آہنگی ہو جائے تو وہ بغیر بتائے خود لکھنا شروع کر دے گا۔
ہم نے کبھی بھی بچوںمیں مقابلہ سازی کی فضا کو فروغ نہیں دیا اور نہ ہی اچھے کاموں پرکوئی انعام دیا ۔البتہ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔ان کووہ کرنے دیا جو جماعت کے ماحول میں رہتے ہوئے وہ کرسکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے کام کی تکمیل سے خوشی حاصل کی اور یہ مسرت ہی ن کا اپنا انعام تھا۔
میں اب سمجھ گئی ہوں کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام کیوں خراب ہے۔ ہم بچےپر بہت دباؤ ڈالتے ہیں ۔اسے مقابلہ پر اکساتے ہیں ۔ اس بات نے ہمیں ویسابنا دیا ہے جیسا ہم نظرآتے ہیں۔اپنی خواہشات کے حصول کے لیے لالچی ،پر عزم حتیٰ کہ غلط یا صحیح طریقے میں بھی تمیز نہیں کرتے۔بچے کی نشونما میں اس کو وقت دیں ۔یہی بچہ جدت کی دنیا میں فطرت کا بہترین نمونہ ثابت ہوگا۔
ڈان میں، 20 ستمبر 2024 کو شائع ہوا۔
ماخذ: روزنامہ ڈان