ضمیر کا عمل

تحریر:   زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

کچھ تکالیف ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں مگر ان کا اظہار ہم سب کو چونکا دیتا ہے ۔کیونکہ اس کے نتیجہ میں ہم سب میں اس مسئلہ سے متعلق فہم پیداہوجاتا ہے اورقوم میں انسانیت سرایت کرجاتی ہے ۔ ان حالات میں ہم سب کی رہنمائی کرنے والا  [Truth and Reconciliation Commission]کمیشن برائے حقیقت اور مفاہمت   یعنی  TRC ہے” – نیلسن منڈیلا

یہ الفاظ ایک ایسے رہنما کے ہیں جنہوں نے اپنی عمر کے 27سال جیل میں کاٹے۔یہ مدت انہوں نے روبن جزیرے پر پتھر کوٹتے ہوئے گزاری ۔ یہ کلمات دانائی اور  ہوشیاری سے  بندھے ہوئے  ہیں۔جو فکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ منڈیلا جنہوں نے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام  کو نسلی تعصب  کی دلدل سے نکالا۔اپنے لوگوں کو احتجاج کا  ڈھنگ سکھلایا۔لیکن جب سیاہ فام اقتدارمیں آئے تو انہوں نےان لوگوں کو کسی کے بھی خلاف خون کی ندیاں بہانے سے روکا۔اصل احتجاج لوگوں کے ضمیر کی خاموش آواز ہوتی ہے۔ اس احتجاج کو پرامن ہونا چاہیے ۔اگر ا حتجاج پر تشددکا عنصر غالب ہوتو وہ احتجاج نہیں بلکہ انتقام کہلاتا  ہے ۔جو صریحاً غلط ہےجسے کبھی بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

منڈیلا ایک صاحبِ  زیرک سالار تھے۔ وہ سمجھ  گئے تھے کہ ان کے لوگوں کوسفید فام بوئر(Boer) نے  کس طرح وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔جن کی بناء پر ان میں غم و غصہ بھرا ہواتھا ۔اسی لیےانہوں نے ایک حقیقت پسندانہ اور مصالحتی کمیشن(TRC) بنایاتاکہ  وہ سیاہ فام جو ہر قسم کی بے توقیری اور ناانصافی کا شکار ہوئے تھے ۔ان کے غم وغصہ کو سنا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا آخر نتیجہ کیا  نکلا؟ عملی طور پردر حقیقت  اس کا کوئی نتیجہ نکل کر سامنے نہیں آیا۔لیکن اس بات نے جنوبی افریقیوں کو اپنے ماضی سے مربوط کرنے اور اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے قابل بنادیا۔

کہا جاتا ہے کہ احتجاج سیاسی تبدیلی  لانے کے لیے ایک طاقتورہتھیار ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آوازاٹھاتے ہیں ۔ یہ بے حسی اس لیے ہے کہ ہم کئی دھڑوں میں بٹ چکے ہیں ۔ایک چیز جو کسی کو نقصان پہنچاتی ہے وہ دوسرے کے لیے باعثِ رحمت ہوجاتی ہے ۔ لوگ اسی وقت احتجاج کرتے ہیں جب انہیں کسی بھی چیزسے براہ راست تکلیف ہورہی ہوتی ہے۔مگر وہ اس ناانصافی پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جو کمزور اور پسماندہ طبقے کو ایذاپہنچاتی ہے۔وہ مظلوم طبقہ جو  خود کو  متحرک کرنے اور اس مسئلے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔

لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس  کوئی بھی احتجاج کرنے والے فعال حضرات نہیں ہے۔ احتجاج کرنے کے لیے ایک سرگرم کارکن کے ساتھ ساتھ سماجی حِس بھی ضروری ہے۔ یہ خصوصیات پیدائشی ہیں اور ان کو ایک ایسے شخص میں ودیعت  کرنا مشکل ہے جس میں فطری طور پر ہمدردی اور انصاف کا احساس نہ ہو۔

پاکستان میں خواتین تحریک کی بدولت ملک میں خواتین کی حیثیت میں خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے جو انیس ہارون اور شیماکرمانی جیسی خواتین کی بدولت ممکن ہوا ۔ یہ وہی خواتین ہیں جو ہاتھوں میں بینرز لیے فٹ پاتھ پر جاکھڑی ہوتی ہیں ۔ انہوں نے اصل نعرے تخلیق کیے  اور ہم خیال مردوں عورتوں میں جذبہ اور احتجاج کی امنگ  ابھارنے میں کامیاب رہیں۔ نوجوان نسل آگے بڑھی اوریوں عورت مارچ نے جنم لیا۔

 

سول سوسائٹی کی مزاحمت کے خوف سےعقلِ  کل حکومتوں نے مظاہرین اور درحقیقت مظاہروں کو منظم کرنے والی تنظیموں پر پابندی لگا دی  جس کی کھلی مثالیں  طلبہ تنظیمیں اور مزدور یونین ہیں ۔ اس پابندی نے احتجاج کلچر پر اثر ڈالا اور نوجوانوں کو غیر سیاسی بنا دیا۔

شکر ہے کہ ہمارے پاس اب بھی  ایسے باضمیر لوگ ہیں جنہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ نعیم صادق کو ہی لے لیجئے۔جو حقائق جمع کرنے میں اپنا بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ اور انہیں مشکلات سے نکالتے ہیں۔ وہ لوگوں کے ساتھ ہونے والی  اس ناانصافی کی شدت سے دوسروں کو  آگاہ کرتے رہتے ہیں۔نعیم صادق کہتے ہیں کہ اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہونی چاہیے اور وہ اپنے اس مطالبہ کے پرزورحامی ہیں ۔

ابھی حال ہی میں میری ملاقات ایک  اچھوتے نوعیت کے احتجاج کرنے والے  فرد سے ہوئی۔یہ عبدالحمید داگیاہیں جو  2015 سے کراچی شہر کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ 80 سال کی عمر میں انہوں نےاب تک  تن تنہا  1,440 احتجاج کیے ہیں۔ یہ ایک طرح کا ریکارڈ ہے۔وہ  اپنے پلے کارڈ کے ساتھ خاموشی سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔داگیا  نے 1990 کی دہائی کے وسط تک کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن اور اسٹاک ایکسچینج میں ملازمتیں کیں۔وہ  متوقع طور پرایک مستحکم اورشاندار کیریئر کے مالک تھے ۔لیکن انہوں نے اس ملازمت کوترک کردیا کیونکہ ان کے اردگرد بدعنوانی کے مواقع اور پیش کش انہیں غیر مطمئن کرتے رہے۔ یہ صورتحال  طبقاتی مساوات کے خلاف تھی جو ناانصافی کا سبب بنتی ۔اسی بات نے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا۔

جو چیز انہیں  منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اکیلے اور خاموش احتجاج کرتے ہیں۔ ہفتے میں تین بار وہ کسی شاہراہ پرجاکھڑے ہوتے ہیں۔ ایک خاموش، عمر رسیدہ شخص نے اس ناانصافی کا اعلان کیا جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ان کے احتجاج کراچی پر مرکوز ہیں۔ ایک بینر پر لکھا ہے، ‘لاوارث کراچی’ ایک  کی عبارت ہے ‘درخت کاٹنا بند کرو۔اس عبارت کی وجہ سے کے ایم سی عملہ نے ان پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں زدو کوب کیا ۔ایک بینر پر درج ہے، ‘سندھ کا بجٹ دوگنا، کراچی کا حصہ  کہاں ہے’

میں نے ان سے پوچھا کہ “کیا لوگ آپ کے احتجاج میں آپ کا ساتھ دیتے ہیں؟” انہوں نے جواب دیا کہ “کچھ راہ گیر اجنبیت  کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔کبھی کبھی لمحہ بھر کے لیے ساتھ  کھڑے بھی ہوجاتے ہیں ۔لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے البتہ ایک بار ایک جج صاحب نے اتفاقاً مجھے احتجاج کرتے ہوئے دیکھا اور اپنی گاڑی وہیں روک کر میرے ساتھ یک جہتی کے طور پر کھڑے ہوگئے۔” ایک باضمیر جج۔ہمیں اس نوعیت کے ججوں کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

 

4 اکتوبر2024 میں شائع ہوا.

ماخذ: روزنامہ ڈان