دورِ بلوغت کی دشواریاں

تحریر:  زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

نوعمری کا دور کسی بھی نوجوان کی زندگی میں پریشانی سے مبرا نہیں ۔کم سنی سے بلوغت کا سفر بہت دشواریاں پیدا کرتا ہے ۔بنیادی طور پر جسم اور ہارمونز میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ان نئی تبدیلیوں کی وجہ سے نوجوان ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہوتا ہے ۔ اگر لڑکیوں اور لڑکوں کو بلوغت کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہی دیدی جائے تو وہ بہت معاون ثابت ہوتی ہے ۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں گھر والوں اور اساتذہ کا کردار اولین ہوتا ہے ۔ لیکن آج بھی ہمارے معاشرے  میں بلاوجہ کی روک ٹوک اور بے جا سختی نے اسے  بہت مشکل کردیا ہے جبکہ عالمی سطح پر ایسا نہیں ہے ۔

بچے کو مناسب عمر میں کونسلنگ کرنے  والے خود اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو اس بات کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس صورت میں بچے کا فطری تجسس اور متلاشی طبیعت سامنے آجاتی ہے۔ایسے میں اس کے  ہم عصر دوست   الجھن دور کرنے میں اپنے طور پراس کی مدد کرتے ہیں۔لیکن جس نوعیت کی مدد کی جاتی ہے وہ  زیادہ تر غلط اور گمراہ کن ہوتی ہے ۔ لوگوں کے درمیان اس پر بات ہی نہیں ہوتی۔ جبکہ دوسری طرف نوجوانوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال اتنا عام ہوچلا ہے ۔بظاہریہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اپنی پڑھائی کے لیے ستعمال کی جارہی ہے۔مگردراصل  اس آن لائن ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال فحش مواد کی تلاش میں کیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں، میں حالیہ برسوں میں مختلف تنظیموں اور مصنفین  کی طرف سے لکھے گئے مضامین کو سراہتی ہوں ۔ان کی تحریروں کا ترجیحی مقصدمعلومات دینا ہے ناکہ اس موضوع   پر انہیں لذت دینی ہے ۔ اس میدان  میں  سب سے پہلے داخل ہونے والا ادارہ آہنگ تھا۔ جس نے 1990 کی دہائی میںLife Skills- Based Education پر مبنی آگاہی کتب شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔آہنگ نے مجھے بتایا کہ  اب وہ اساتذہ اور طلباء کے لیے آگاہی فلمیں بھی  بنا رہے ہیں۔ اور یہ کہ سینکڑوں اسکول  اپنے طلباء کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان مطبوعات کو حاصل کرتے ہیں۔ میں نے ان کی کتابیں کئی برس قبل انڈس ریسورس سینٹر کے اسکولوں میں دیکھی تھیں۔

مذکورہ  شعبہ میں  نئی آمد ڈاکٹر شیرشاہ سید کی ہے ۔جو حقوقِ نسواں کے پرجوش حامی اور ماہر امراض نسواں ہیں۔ ان کی نئی کتاب “امّی بتائیے” کی رونمائی آرٹس کونسل کے رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے میں کی گئی۔ چونکہ سیشن کا موضوع ‘عورتوں کے امراض: افسانہ اور حقائق’ تھا اسی لیے گفتگو کا بیشتر حصہ خواتین کی صحت سے متعلق ہی رہا۔  ڈاکٹر شیرشاہ کی کتاب اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک  پیشہ ور طبیب ہونے کے ناطے ان کا اس موضوع پر فہم بہت وسیع ہے ۔ساتھ ہی وہ ایک مقبول لکھاری بھی  ہیں اسی لیے ان کا اندازِ تحریر نوجوان قاری کے لیے بہت دلکش ہے جو ایک مکالمہ کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔

جب میں نے’امی بتایئے’ کتاب نوجوان ماؤں میں تقسیم کی  تو ملا جلا ردعمل سامنے آیا ۔ کچھ ناخواندہ ماؤں کو یہ کتاب پڑھ کر سنائی گئی توانہوں نے  نہ صرف اپنی دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ وہ مزید جاننے کے لیے متجسس تھیں۔ انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے اتنے سوالات کیے کہ مجھے ان خواتین کو ملیر کوہی گوٹھ میڈیکل کمپلیکس کاراستہ بتاناپڑا ۔ یہ اسپتال  ڈاکٹر شیرشاہ کے خاندان کے زیر انتظام کام کرتا ہے۔

مجھے 12 سے 14 سالہ  طالبات کا بھی ردعمل ملا جو انتہائی چونکا دینے والا تھا ۔ انہوں نے اس کتاب پرکوئی خاطر خواہ  توجہ نہ دی ۔کیونکہ ان کی معلومات اس کتاب کے موضوع سے کہیں زیادہ تھی۔ انہوں نے بتا یا کہ نسوانی حسن میں اضافہ کے لیے  انہوں نے’ایک آنٹی’ سے  ‘کریم’ حاصل کی تھی۔ ایک اور نے بتایا کہ ان کی بڑی بہنیں مباشرت سے متعلق بہت کچھ جانتی تھیں کیونکہ انہوں نے اس کی آگاہی یوٹیوب سے  حاصل کی تھی۔

معلومات کے ان دھڑوں نے  مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔  اور جب ان وقتاً فوقتاً ملنے والی معلومات کو جوڑنا شروع کیا تو ایک مکمل تصویر ابھر کر سامنے آئی۔

بچوں سے زیادتی  کے واقعات پر خاموشی کی لہر توڑنے والی این جی او ساحل  ہے۔ ساحل کے مطابق پاکستان 2022 میں آن لائن چائلڈ پورنوگرافی میں عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر تھا۔ وکی پیڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی 2011 سے فحش ویب سائٹس پر پابندی لگا رہی ہے۔جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ 2015 میں جب قصور سکینڈل سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ سینکڑوں  بچوں کو فحش فلموں میں استعمال کرنے کے لیے اغوا کیا گیا  تھا۔ بچوں کو اٹھائے جانے اورزبردستی  فحش فلمیں دکھانے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

ذہنی معالج نے انکشاف کیا ہے کہ بہت سے بالغ لوگ اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ وہ فحاش فلمیں دیکھتے رہے ہیں ۔اب جبکہ وہ  عادت میں بری طرح جکڑ چکے ہیں۔اسے چھوڑ نہیں پارہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  یہ لت انہیں  نقصان پہنچاتی ہے ۔ ایک ماہرِ نفسیات فحش مواد دیکھنے کی علت کا نتیجہ معاشرہ سے کنارہ کشی اور الگ تھلگ زندگی قراردیتا ہے ۔ ایک اور ذہنی صحت کے مشیر کا کہنا ہے کہ یہ علت “عقائد، انسانی تعلقات اور جنسیت کے  تاثر کو بگاڑتی ہے” اور متاثرہ شخص میں اپنے ہی بارے میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

اب ہم کس کی طرف  دیکھیں ؟ حکومت جسے ہر محاذ پراپنادشمن نظر آتا ہے۔اور وہ اس ملک کو تباہ کرنے والی  اصل معاشرتی برائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے   اپنے دشمنوں کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ ہر طرح کے مجرموں کو ملک میں دولت لوٹنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنے دفاع کی  بہتر تدبیر کرنی ہوگی ۔جودانائی ،متوازی تعلیم اور کھیل کود کی بدولت ہی ممکن ہے۔مگر افسوس یہ ہماری حکوموے۔ی ۔ت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔نے دفاع کی تربیت دین تربیت دینی مصروف ہے۔الگ تھلگ زندگی

18 اکتوبر 2024 کو شائع ہوا۔

ماخذ:          روزنامہ ڈان