تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
جب سے پاکستان میں تعلیمی ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا ہے ۔عوامی حلقوں میں تعلیم کا ذکر زوروشو ر سے شروع ہوگیا ہے۔ایسا دوسری بار ہوا ہے ۔اس موضوع پر تواتر سے سیمینار منعقد کروائے جارہے ہیں ۔ میڈیا پہلے سے کہیں زیادہ اس مسئلے پر توجہ دے رہا ہےلیکن زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔۔اس تاریک منظر نامے میں ایک خوش کن اعلان سننے میں آتا ہے ۔
بیلا رضا جمیل کو ایشیائی خطے کے لیے گلوبل ایجوکیشن میڈل سے نوازا گیا ۔بیلا ادارہ تعلیم و آگہی (ITA) کی فعال سربراہ ہیں ۔ بیلا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیمی شعبے کے نایاب لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف زبانی بات کی بلکہ ان کےعملی اقدامات کی بدولت لاکھوں لوگوں کی زندگی پر تعمیری اثر ہوا ہے۔
بیلانے 2011میں پاکستان لرننگ فیسٹیول کا آغاز کیا جو ہزاروں بچوں کے سیکھنے کا ایک غیر رسمی انداز ثابت ہواہے۔ انہوں نے 2008 میںASER(پاکستان)قائم کیا ۔جس کا مقصد ملک بھر میں بچوں کےسیکھنے کے نتائج کو جانچنا تھا۔حال ہی میں انہوں نے بچوں کی کتابوں کے ناشر کی حیثیت سے اپنے کام کی شروعات کیں ۔جس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مطبوعات مقامی زبانوں میں بھی شائع ہوتی ہیں۔
یہ بدنصیبی ہے کہ تعلیمی مسائل سے متعلق بیلا کی مختلف تجاویز ہمارے پالیسی بنانے والوں کی ذہنیت کو بدلنے میں ناکام رہی ہیں ۔وہ پالیسی ساز جن کے ساتھ بیلا کام کرتی رہی ہیں ۔ ایک مسئلہ جس نے مجھے کئی دہائیوں سے پریشان کر رکھا ہے وہ تعلیمی ابلاغ کی زبان ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ حکومت، معاشرہ، ماہرینِ تعلیم، اسکول کے منتظمین اور یہاں تک کہ والدین نے بھی بچوں پر ‘ظلم’ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور ان کے بچپنے کی خوشیاں’انگریزی زبان کی نذر’ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
البتہ کچھ حکومتی ذمہ داران اور ماہرین تعلیم اب سنجیدگی سے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ اساتذہ کی اکثریت انگریزی زبان سے نابلدہے جس سے ان کی تدریسی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود غیر واضح پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں ۔
اسکول کے ابتدائی تعلیی مرحلہ میں ہی چھوٹے بچوں پر انگریزی زبان مسلط کرنے کااحمقانہ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔افسوس کہ اس سنگین غلطی پر کوئی ییداری مہم نہیں چلائی جا رہی ۔ طلباء اس زبان سے غیر مانوس ہونے کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ اگر اوائل بچپن اور ابتدائی تعلیم کے چند سالوں میں مادری زبان یا علاقائی زبان استعمال کی جائے تو بچوں کو اسکول ایک دوستانہ اور قابلِ قبول جگہ معلوم ہوگی۔ اگرزبان کی تبدیلی کا سفرآہستہ آہستہ ہو اور ایسے وقت ہو جب طالب علم نفسیاتی اور ذہنی طور پر اس کے لیے تیارہو تو یہی مناسب مرحلہ ہوتا ہے۔ایسے میں اجنبی زبان میں تدریس تکلیف دہ نہیں ہوگی۔
اس مخلوط طریقے میں یقیناً کوئی سنگین لغزش ہے ۔جس میں استاد اردو زبان میں بات کرتا ہے ،درسی کتب کی زبان انگریزی ہے اور طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انگریزی زبان میں بولیں، پڑھیں اور لکھیں۔ یہ روش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک زبان کے عنصر کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔اسی سبب اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ بچہ گونگا رہے گا۔رٹا لگائے گا اورکبھی بھی تخلیقی و تنقیدی سوچ نہیں اپنائے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم پیچھے کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ پچھلے سال تک سندھ کی لسانی تعلیمی پالیسی نسبتاً اور جگہوں سے بہتر تھی ۔کیونکہ اس میں منطق یہی تھی کہ جن علاقوں میں سندھی زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی وہاں ذریعہ ءِ تعلیم سندھی اور جن علاقوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں اردوزبان ہی تعلیم کا ذریعہ تھی ۔سندھ کے تمام سرکاری اسکولوں میں سندھی اور اردو زبان بولنے والے علاقوں میں اردو زبان ہی بول چال کا ذریعہ تھی ۔ ہر طبقے کے بچوں نے دوسری زبان کو بحیثت لازمی مضمون کے طور پر سیکھا۔ تاہم نجی اسکولوں کو ان کی مرضی کے مطابق چھوٹ دیدی گئی تھی۔
آج ضلع جنوبی،کراچی کے مخصوص سرکاری اسکولوں میں انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اور یہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے غیر تحریری احکامات کے تحت ہورہا ہے ۔ ہم مذکورہ پالیسی کے تباہ کن اثرات کے بارے میں کبھی نہیں جان پائیں گے کیونکہ امتحانی بورڈ ہمیشہ ہی مطلوبہ نتائج دینے کا قائل رہا ہے۔یہ بات بورڈ کی بدنامی کا سبب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مستقبل کے امیدواروں کی صلاحیتوں کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔
نتیجتاً تعلیم اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔ اب ساری فکر تعداد پر ہے ۔ پاکستان میں 2.6کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور یہ تعداد ملک کے لیے ایک بدنما دھبہ ہے۔ تعلیم کے اس مایوس کن منظر نامے میں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا اصل سبب یہی زبان ہے مگر افسوس کہ اس وجہ کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ ہمارے سرمایہ داران اور ان کے حامی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو ہمارے اس تعلیمی نظام نے ہی جنم دیا ہے جس میں امیر اعلیٰ درجے کے اشرافیہ اسکولوں میں جب کہ غریب سرکاری اور کم فیس والے نجی اسکولوں میں جاتے ہیں۔وہ نجی اسکول جو انہیں انگریزی نہیں سکھاسکتے ۔ اس طبقاتی نظام سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ بلاشبہ وہ سرمایہ داران جو آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں خوب پنپ رہے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں خبردار نہیں رکھا گیا ہے۔ باخبر رہنے کے لیے آپ کو رابرٹ فلپسن کی کتاب (Linguistic Imperialism)، پاؤلو فریئر کی (Pedagogy of the Oppressed)، زبان اور تعلیم کے بارے میں انتونیو گرامسی کے خیالات اور ڈاکٹر ماریہ مونٹیسوری کی (The Absorbent Mind) کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
اقتدار کے عہدے پر فائز افراد نے جبر اور رضامندی کی ایک ایسی مبہم حالت پیدا کردی ہے جو اس بات کی ضامن ہے کہ زبان کی پالیسی کے خلاف کوئی عوامی احتجاج نہیں ہوگا۔
ان حالات میں بچوں کے لسانی حقوق کے حامی کو کنارے لگادیا گیا ہے ۔
یکم نومبر 2024 کو شائع ہوا۔
ماخذ: روزنامہ ڈان