تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
وقت پر لگاکر اڑتا جاتا ہےاور ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم سے جدا ہونے والے شخص کے فراق کو ایک عرصہ بیت گیا ہے ۔ایسے میں کوئی بات ہمیں جھنجھوڑ کر ہمارے نقصان کی یاد دلاتی ہے ۔ بالکل ایسا ہی اس وقت محسوس ہوا جب ڈاکٹر کملیش ور لوہانہ نے مجھے فون کرکے یہ بتایا کہ وہ اپنے والد ولی رام ولابھ (1941-2023) کے اعزاز میں ایک یادگاری لیکچر کا اہتمام کر رہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے تراجم سے ہماری ثقافت اور معاشرے کو تقویت بخشی۔
ولی رام صاحب نے اپنے کام کو اس رشتہ کی صورت زندہ رکھاجو انہوں نےمختلف طبقوں کے درمیان قائم کیے تھے ۔ان کے نزدیک محبت زندگی کا سب سے بنیادی جز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا تخلص ‘ولابھ’ (یعنی’محبوب ‘ ) اختیار کیا ۔ درحقیقت وہ مترجم کے علاوہ باصلاحیت شاعر اور ادیب بھی تھے ۔
یہ لیکچر نو تشکیل شدہ ولی رام ولابھ ادبی سوسائٹی کے زیراہتمام منعقد ہوا۔جس کی صدارت سٹی پریس کے بانی اجمل کمال نے کی جبکہ کمیشن برائے انسانی حقوق کے جنرل سکریٹری حارث خلیق کلیدی مقرر تھے۔ یہ دونوں حضرات بذات خود ممتاز ادیب ہیں ۔ان دونوں شخصیات نے عظیم مترجم ولی رام صاحب کی علمی حیثیت اور ان کے انسانی اقدار کے مثالی اظہارکو بہترین انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔
لیکچر کا موضوع بنیادی طور پر ترجمہ نگاری کی صنف پر تھا۔ اس موضوع کے مختلف پہلو زیر بحث آئے۔ ادبی تصانیف کا ترجمہ مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کی ثقافت سمجھنے کے قابل بناتا ہے اور ان کے درمیان امن کی فضا کو فروغ دیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان نے اپنے ولی رام جیسی مترجم شخصیات سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ یہاں مطالعے کا رواج ناپید ہے اور ہماری2.4 کروڑ آبادی میں صرف ایک محدود طبقہ ہی کتب بینی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔بلاشبہ ناخواندگی کی ایک بلند شرح بھی مطالعہ کی عادت کے فقدان کااہم سبب ہے ۔
تقریب میں لیکچر اور ساتھیوں کی بحث نے مجھے ولی رام صاحب کی ایک بات یاد دلائی۔جو انہوں نے کسی موقع پر کہی تھی: “جس معاشرہ کی اخلاقی اور روحانی اقدار بلند ہوں ،وہاں کے لوگ کتابوں کواتنا ہی عزیز رکھتے ہیں۔ جب تخلیقی ادب عروج پر ہوتا ہےتب ترجمہ بھی پروان چڑھتاہے۔” میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چاہونگی کہ تمام ادبی سرگرمیاں فردِ واحد کا حصہ نہیں ہوتیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مطالعہ بھی ادبی تخلیق کی انتہا ہےجو اجتماعی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
مطالعہ کی رغبت کسی دوسرے قاری سے ملتی ہے۔وہ قاری بہن، بھائی، دوست، استاد، والدین یا کوئی کتابی حلقہ بھی ہوسکتا ہے۔ مطالعہ کے بعد کتاب پر خیالات کا تبادلہ سب سے زیادہ متاثر کن سرگرمی ہوتی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں لائبریریوں کے لیے جگہ اور وسائل ‘ضائع’ نہیں کیے جاتے۔ تو ایسے میں کیا ہم مطالعے کا رواج پنپنے کی امید رکھ سکتے ہیں؟
بالکل اسی طرح تحریر بھی ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں کئی لوگوں کا کردار ہوتا ہے ۔ مثلاً کتاب کے کچھ ابواب پڑھنا یا اشاعت سے پہلے مصنف کے ساتھ کتاب پر گفتگو کرنا۔ کتابوں میں طویل تشکر کے ساتھ اعتراف ناموں کی موجودگی میری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تحریر بھی انفرادی عمل نہیں ہے۔ البتہ حتمی ذمہ داری مصنف کی ہوتی ہے کیونکہ آخر میں وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کیا لکھنا ہے۔
ولی رام صاحب کے لیے یہ سب ادبی سرگرمیاں ترجمے کے عمل کا حصہ تھیں۔ اس سے لوگوں کے درمیان تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے ان ابتدائی مراحل پر بہت روشنی ڈالی۔مثال کے طور پر وہ اساتذہ جنہوں نے انہیں بچپن میں پڑھایا اور ان کی صلاحیت کو دریافت کرنے میں رہنمائی کی۔ ان میں سے ایک رائے چند راٹھورصاحب تھے جو چیلہار (تھرپارکر) اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔راٹھور صاحب نے انہیں اپنی کتاب “تاریخ ریگستان” کا ایک نسخہ تحفے میں دیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنا اور روشن خیالی دونوں ہی ان کے جنون بن چکے تھے۔ اردو، عُمرانیات ،ذرائع ابلاغ جیسے تینوں مضامین میں ماسٹرز کیا ساتھ ہی وہ ایل ایل بی کی بھی سند رکھتے تھے ۔اس کے علاوہ وہ دھاتکی، سندھی، اردو، سنسکرت، پنجابی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور تھا ۔یہ ان زبانوں سے ولی رام صاحب کی محبت ہی تھی جس پر ولی رام صاحب نے اپنی تعلقات کی عمارت کھڑی کی۔ یہ سب ان کی اپنی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
کتابوں کا انتخاب بھی اسی عمل کا حصہ تھا۔ وہ کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کتاب کا ترجمہ بطور پیشہ ورانہ نہیں کیا۔
جس کتاب کو بھی انہون نے ترجمہ کے لیے منتخب کیا وہ ہمیشہ ان کی اپنی پسند ہوتی تھیں ۔ اس کتاب میں ان اقدار کا ہونا ضروری تھا جوان کے مزاج کا حصہ تھا ۔
یہ اقدار کیا تھیں؟ یہ اقدار مساوات، ترقی پسندی، حقوقِ نسواں ، انسانی وقار کا احترام، امن اور محبت پر مشتمل تھیں۔ یہ صرف مختلف زبانیں بولنے والے طبقے کی ثقافت اور طرز زندگی کے فہم کو فروغ دینے کا مشن نہیں تھا بلکہ ان اقدار کو بھی فروغ دینا تھا جو ان کے اپنے افسانوں اور شاعری میں نمایاں تھیں۔ ولی رام صاحب کی ایک نظم جو انہوں نے اپنی بیٹی گوری کی سالگرہ کے موقع پر لکھی،۔ یہ نظم عورتوں کے اختیارات اور خودمختاری پر ان کے آزاد خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔
نظم ملاحظہ کیجئے
پیاری بیٹی گوری کے جنم دن پر
یہ جو پتنگ تم اڑا رہی ہو
صحیح تو اڑا رہی ہو
اب نظر پتنگ پہ رکھو
اور اس کا مانجھا اپنے بچوں کے ہاتھوں میں دےدو
پتنگ کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رکھو
اپنے تدبر اور سمجھہ بوجھ سے
اپنے ہمسفر کے مشورے سے
اپنے ہاتھ کے موڑ سے اس کو ایسا جھٹکا دو
کہ پتنگ آسمان میں اور اونچی اڑے
یک ٹک کھڑی رہے
اور دور سے اسکو دیکھ کے خوش ہوتا رہے
تمہارا بابا
ڈان میں 15 نومبر 2024 کو شائع ہوا۔