صفائی کی ضرورت ہے

تحریر:  زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

بچپن سے ایک مشہور کہاوت سنتے آئے ہیں کہ : “صفائی نصف ایمان ہے”۔کراچی جسے  سر چارلس نیپئر نے  کبھی “مشرق کی ملکہ” کہا تھا۔مگر افسوس  آج یہ شہر اپنا ایمان کھو چکا ہے۔ کراچی   میں صفائی کی شدید ضرورت ہے۔

شہر کی عالمی درجہ بندی میں کراچی کا شمار  بہت اوپر یا بہت نیچے نظر آتا ہے۔یہ پرکھ  آپ کی نظر پر منحصر ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ نے دنیا کے 173 شہروں کوقابلِ  رہائش ہونے کے اعتبار سے جانچا۔ جس میں ماحول اور بنیادی ڈھانچے سمیت  دیگر عناصربھی شامل تھے۔ اس میں کراچی 169ویں نمبر پر آیا۔

ٹھوس کچرےکی  آلودگی کے حوالے سےیہ شہر ملک بھر میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ ٹھوس کچرا  نہ صرف شہر کو ناقابلِ رہائش بناتا ہے بلکہ اس  کے جمالیاتی حسن  پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ کراچی روزانہ 16,500 ٹن کچرا پیدا کرتا ہےلیکن محض  دو تہائی کچرا ہی اٹھایا جاتا ہے جوشہر کے مضافات میں موجود چند لینڈفل سائٹس پر بھیج دیا جاتا ہے۔ باقی کچرا گلی نکڑ، کھلی جگہوں اور بعض اوقات عین سڑک پر نظر آتا ہے ۔ 2014 میں قائم ہونے والا سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اب تک اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی ناقص  کارکردگی عوام کے سامنے کھلی ہوئی ہے۔

شہری آلودگی کے انسانی صحت پر اثرات کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بھی اس معاملے پر خاموش دکھائی دیتاہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے  لوگوں نے اپنے آس پاس کے  کچرے کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہو۔ طبی شعبہ نے اپنی تمام ترتوجہ  علاج معالجہ کی حد تک رکھی ہے  مگر وہ یہ  بات کہنا بھول جاتے ہیں کہ ایک صاف ستھرے شہر میں بیماریاں کم ہوتی ہیں جس کی بدولت مریضوں پر کیے جانے والے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ  ٹھوس کچرا کا مسئلہ طبقاتی تقسیم سے جڑا ہوا ہے۔ “ساؤتھ ایشین آئیڈیا” (ایک آن لائن جریدہ) میں انجم الطاف جنوبی ایشیا کے شہروں کے مستقبل پر لکھتے ہیں۔ وہ ہمارےشہروں کی صورتحال کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ ان کے مطابق:

“ہر جنوبی ایشیائی شہر دو حصوں یعنی امیروں کے علاقے اور غریب کی جھگی میں بٹ چکا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی اقرارکیا ہے کہ  بیماریاں  آلودہ ہوا سے نہیں بلکہ جراثیم سے پھیلتی ہیں ۔اس بات نے اجتماعی صفائی کی ضرورت سے توجہ ہٹا کر افراد کو حفاظتی ٹیکوں  کی طرف راغب کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں  غریبوں کی بیماریاں امیروں کی بیماریوں سے الگ ہوگئی ہیں۔ شہر بھر میں صفائی کے لیے  کوئی مؤثر دباؤ موجود نہیں ہے جو پورے شہر کو فائدہ پہنچائے۔”

وہ سوال کرتے ہیں:”کیا جنوبی ایشیا کے شہرکامستقبل دہرے پن  کا شکار ہے؟”

البتہ کراچی مکمل طور پر اس بیان پر پورا نہیں اترتا۔ اس شہر کی آبادی یقیناً مختلف آمدنی والے  طبقوں  میں تقسیم ہے لیکن یہ علاقے مکمل طور پر ایک دوسرے سے کٹے ہوئے نہیں  ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ خوشحال علاقے اکثر ان جھگیوں سے گھِرے ہوتے ہیں  جہاں سے مزدور طبقہ انہیں گھریلو خدمات مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا ہمارا معاشرہ دہرا معیار رکھ سکتا ہے لیکن ہمارا شہر نہیں۔

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی شہر کا سب سے زیادہ خوشحال اور نمایاں رہائشی علاقہ ہے مگر وہاں بھی  جابجا ٹھوس کچرے کے ڈھیر اور خستہ حال سڑکیں ہیں۔یہاں کے  رہائشیوں کے مسائل ناظم آباد اور گلشن کے باسیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ تاہم امیروں کے مسائل کی شدت اور پیچیدگی کم ہے۔ظاہر ہے کہ پیسہ کئی مسائل کو حل کردیتا ہے۔مگر اس کے باوجود یہاں  مسائل موجود ہیں جو ہم  پاکستانیوں کی کچرے سے متعلق بے حسی کا کھلا ثبوت ہیں۔

صفائی کی مہم کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟  کچرا اکٹھا ہونے کی جگہ سے کچرےکو اٹھاکر  اسے لینڈفل سائٹ  تک پہنچانا  بلاشبہ میونسپل حکام کا کام ہے لیکن عوام کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارےعوامی استعمال کے مقامات پر صفائی سے لاتعلقی کے رویہ میں  کوئی طبقاتی فرق نہیں۔ میں نے امیر ترین لوگوں کوچلتی ہوئی  ایئر کنڈیشن پجیرو کی کھڑکی سے کچرےکا تھیلا سڑک کنارے پھینکتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ظاہر ہے کہ  وہ کچرا سڑک کے درمیان جا گرا ۔

عوام کو چاہیے کہ وہ عوامی استعمال کے مقامات  پر کچرا نہ پھینکیں۔ انہیں اپنے گھروں میں پیدا ہونے والے کچرے کو تین اقسام میں  بانٹنا ہوگا:

کھاد بنانے کے لیے باورچی خانے کا نامیاتی کچرا۔دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لیے کاغذ اور شیشہ کا کچرا۔ مناسب طریقے سے تلف کرنے کے لیے پلاسٹک کا کا کچرا ۔ اس کے بعد  مقامی حکومت کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔جس کے لیےعوام کو ایسے مقامات مہیا کیے جائیں جہاں سے یہ چھانٹا ہوا کچرا درست منزل تک پہنچایا جا سکے۔

ایک مرتبہ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک ملک میں میرے میزبان نے بتایا کہ  جن اسکولوں میں بچوں کو ابتداء ہی میں صفائی کی اہمیت سکھلائی جاتی ہے وہ بچے بہت جلدی سیکھ جاتے ہیں۔ اس طریقے سے بچوں کو محنت کی  عظمت بھی بخوبی  سمجھ میں آتی ہے۔ایک ایسا منفرد اسکول جسے میں خود جانتی ہوں وہ  کراچی کا “گیراج اسکول ” ہے ۔یہ واحد اسکول ہے جہاں بچے اپنی اپنی جماعت کی صفائی خود کرتے ہیں  ۔یہی وجہ ہے کہ اسکول کا احاطہ بہت صاف ستھرا ہے ۔ابھی  گزشتہ ہفتے اسکول نے  اپنی سلور جوبلی منائی ہے ۔ دیگر اسکولوں کو بھی  اس عمل کو اپنانا  چاہیے تاکہ طلبہ میں صفائی کا شعور پیدا ہو۔

ڈان میں 29 نومبر 2024 کو شائع ہوا۔