تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
اقوام متحدہ برائے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق پاکستان کی تقریباً 29 فیصد آبادی 15 سے 29 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جو نوجوانوں کی تعداد کا ایک واضح ابھار ہے ۔ یہ ہماری بلند شرحِ پیدائش (55.2فیصد) میں اضافہ کی وجہ سے ہے۔آبادی کے اعتبار سے پاکستان ایک نوجوان ملک ہے۔ ایک وقت تھا جب نوجوانوں کے اس ابھار کو قومی سرمایہ سمجھتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا جاتا تھاکہ یہ نوجوان ملک کی تقدیر بدل دے گالیکن ایسا نہ ہو سکا۔ آج نوجوان نسل ایک چیلنج بن کر ابھری ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے بارے میں اتنابڑھ چڑھ کر باتیں کرنے والے یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کے کچھ فطری حقوق بھی ہیں اور ان حقوق کو پورا کرنا والدین، معاشرہ اورریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں ہر سال پیدا ہونے والے 60 لاکھ بچے محبت، تحفظ، غذائیت، صحت کی دیکھ بھال اور معیاری تعلیم کے مستحق ہیں تاکہ وہ ملک کی تقدیر بدلنے والے نوجوان بن سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کئی بچوں کو بچپن میں ہی تشدد اور ان بڑوں کی حماقتوں کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے جو ان کی تقدیر پر قابو رکھتے ہیں۔
کیا ایک نظرانداز کیا جانے والا بچہ بڑا ہوکر ایک باصلاحیت اور بھرپور وسائل رکھنے والا نوجوان بن سکتا ہے؟
گزشتہ ہفتے کراچی میں اربن ریسورس سینٹر کے زیر اہتمام کمیونٹی آرکیٹیکٹ ٹریننگ پروگرام بیج 20 کے اختتام پر جلسہ تقریبِ اسناد میں شرکت کا موقع ملا ۔جہاں واضح طور پرکچھ حقائق سامنے آئے ۔ تقریب میں ممتاز ٹی وی آرٹسٹ سلمیٰ حسن نے نوجوانوں کے لیے شہر میں دستیاب تفریحی مواقع پر بات کی۔ اس گفتگو کے پیشِ نظر بات ہوئی کہ اسمارٹ فونز اور ٹیلی ویژن ڈرامے نوجوانوں کی جسمانی تفریح پر غالب ہیں کیونکہ پارک اور کھیل کے میدان کا وجود تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
کھیل اور جسمانی سرگرمیاں حیرت انگیز تبدیلی لا سکتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحت مند تفریح ہوتی کیا ہے۔ اسمارٹ فون سے متعلق کسی بھی ڈاکٹر کے خیالات معلوم کرلیں وہ جواب میں ناپسندیدگی کا اظہار کرے گا۔ جب ان آلات کے بارے میں اتنی زیادہ تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے تو کیا انہیں تفریح کے دائرہ ءِ کار سے دور رکھنا دانشمندی نہیں ہوگی ؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ان روایتی تفریحی ذرائع کو ترجیح دی جائے جو نقصان دہ نہ ہوں؟ درحقیقت کھیل اور جسمانی سرگرمیاں نہ صرف جسم بلکہ دماغ کو بھی چُست رکھتی ہیں۔ یہ نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں بجائے اس کے کہ وہ خود صرف تماشائی بن کر رہ جائیں۔ گزرے زمانے میں چہار دیواری کے اندر کھیلے جانے والے کھیل ،ذہنی نشونما کے کھیل ، مباحثے، تقریری مقابلے، موسیقی اور مختلف صورتوں میں اپنے فن کی ادائیگی بھی بہت مقبول تھے اور ان کے اپنے فوائد تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جسمانی سرگرمیوں کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی چاہیے۔
اس سلسلہ میں اسکول اور کالج کا کردار اہم تھا۔تعلیمی اداروں میں داخلہ نہ لینے والے نوجوان گلی محلہ کے میدانوں ، خالی پلاٹس حتیٰ کہ سڑک کنارے بھی کھیل سکتے تھے۔انہیں کھیل کے دوران تیز رفتار گاڑی سے کچلے جانے کاخوف نہ ہوتا تھا ۔مگر صورت ِ حال اب ایسی نہیں ہے۔ اب اشرافیہ کے پاس اپنے مہنگے کلب اور جم ہیں جہاں وہ اپنی پسند کی تفریح خرید لیتے ہیں ۔ جہاں تک اس طبقے کا تعلق ہے جو خاندان کے ہر فرد کے لیے اسمارٹ فون نہیں خرید سکتا ۔اس طبقے کانوجوان اب بھی کھلے میدانوں میں کرکٹ یا فٹ بال کھیلنے کی جگہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ کوئی خوش نصیب ہی ہوتا ہے جسے ایسی جگہ مل جاتی ہے۔کھیل کے میدان سب کے لیے حکام کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
کھیل کود،جسمانی ورزش کو اگر مناسب طریقے سے منظم کیا جائے تو وہ نوجوانوں کے لیے تعلیمی اور جسمانی طور پر حیرت انگیز نتائج دے سکتی ہے۔
دو منصوبے ایسے ہیں جو نوجوانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ماڈل بن سکتے ہیں۔یہ دونوں منصوبے دو بھائیوں کی طرف سے علیحٰدہ علیحٰدہ شروع کیے گئے ہیں:
ایک منصوبہ کوچ عماد فٹ بال اکیڈمی (CEFA)ہے ۔اس کی بنیاد اظفر اور عطیہ نقوی نے 2018 میں اپنے نوجوان بیٹے عماد کی یاد میں رکھی تھی ۔جس نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ کوچ عماد کا خواب تھا کہ وہ اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد ایک فٹ بال اکیڈمی کھولیں گے ۔ ایک ایسی اکیڈمی جہاں تک پہنچنے کی خواہش ہر فٹ بال شائقین کی ہوگی ۔اب عماد نہیں رہے لیکن ان کے والدین نے ان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔آج یہ اکیڈمی لیاری کے 400 بچوں (جن میں 25 لڑکیاں بھی شامل ہیں) کو 4 کوچ کی مدد سے تربیت فراہم کر رہی ہے ۔
دوسرا منصوبہ ناظم آباد کا ہیپی ڈیل اسکول ہے۔یہ ڈاکٹر اصغر نقوی کی طرف سے شروع کیا گیا ۔ڈاکٹر نقوی نے کراچی کے 9سرکاری اسکولوں کو گود لیا ہے۔ان پرانے پیلے اسکولوں میں وسیع و عریض کھیل کے میدان ہیں جو اسکول کی طرح طویل عرصے سے نظر انداز ہو تے آرہے تھے انہیں اب کھیل کے میدانوں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
ہیپی ڈیل نقوی کا المامیٹر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح اپنے اسکول کاقرض اتاررہے ہیں۔انہوں نے افسوس کے ساتھ اس بات کاعتراف کیا ہے کہ وہ اسکول کے تدریسی عملے کے طریقے درست کرانے میں ناکام رہے ہیں اور یہاں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔البتہ انہیں بہت امیدیں ہیں ۔وہ درخت لگارہے ہیں اور خالی میدانوں کو کھیل اورایتھلیٹکس کے لیے تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔لڑکیوں کے لیے بھی کھیلنے کی جگہ ہے۔ آخر میدان میں کوچ عماد کی ایک بڑی سی آویزاں تصویر ان بچوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔کچھ ہی دنوں میں یہ بچے عالمی سطح پر پہنچ جائیں گے ۔ یقیناً یہ نوجوانوں کے لیےایک اچھی خدمت ہوگی ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے زمینوں کو قبضہ مافیا سےبچالیا جائے گا۔
اہلِ کراچی کو نہ صرف اپنے شہر بلکہ نوجوانوں کو بھی غیر صحت مند تفریح سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
ڈان میں 13دسمبر 2024 کو شائع ہوا۔