تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
ایک جمع ایک دو کے برابر ہوتا ہے لیکن غیر معمولی حالات میں ایک اورایک بے حساب نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی احوال ڈاؤ میڈیکل کالج کی 1979 کی جماعت کا ہے۔ مذکورہ جماعت 435 طلباء پر مشتمل تھی ۔اس جماعت نے ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو ایک خوشگوار احساس دلاتی ہیں ۔ اس وقت کراچی میں یہی واحد میڈیکل کالج تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی شہر سیاسی و سماجی تنازعات کی لپیٹ میں تھا ۔
ہر جماعت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ کالج کے ساتھ جڑے اسپتال کے لیے کچھ نہ کچھ عطیہ ضرورکرتے تھے جیسے کہ زچگی وارڈ، آپریشن تھیٹر وغیرہ کا قیام۔ لیکن ’79 کی جماعت نے کچھ اس سے زیادہ کردکھایا ۔انہوں نے نہ صرف کالج بلکہ پورے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے لیے اپنا کردار ادا کیا ۔ اس جماعت میں کئی ایسے باصلاحیت طلباء شامل تھے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی اور پاکستان کے سب سے غریب طبقے کو اپنی خدمات فراہم کیں۔ امیر لوگوں کو ان خدمات کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ بیماری کی علامات ظاہر ہوتے ہی نجی و مہنگے ترین اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں یا پھر بیرونِ ملک علاج کے لیے چلے جاتے ہیں۔
حال ہی میں میری ملاقات ان میں سے چند نمایاں افراد سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں ہوئی ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر آصف حسن جنہوں نے برطانیہ کے Well Child Best Doctor کا ایوارڈ حاصل کیا۔ڈاکٹر آصف نے قبلِ از وقت پیداہونے والے ایک بچے کی گیارہ گھنٹہ طویل و پیچیدہ سرجری کامیابی سے مکمل کی ۔ اب یہی بچہ چودہ سال کا صحت مند لڑکا ہے۔
ایک اور نام ڈاکٹر شمیم خان کا ہے جو روبوٹک سرجن اور یورولوجسٹ ہیں ۔انہیں (Order of the British Empire) OBE اعزاز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر شمیم نے SIUT میں روبوٹک پروگرام قائم کیا۔ایسی ہی ایک مثال ڈاکٹر یوسف افتخار کی ہے جو Royal Derby Infirmaryشعبہ جراحی کے سربراہ ہیں۔آپ نے 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعد امدادی کاموں میں حصہ لے کر پاکستان میں اپنی خدمات کا لوہا منوایا۔ انہوں نے مظفرآباد میں ایک جدید اسپتال قائم کیا اور جے ای ٹی المنائی کے Inspire of the Year ایوارڈ سے نوازے گئے۔
اسی طرح ڈاکٹر نظام دامانی کو لیجئے۔ ان کی نمایاں خدمات پر (Member of the British Empire) MBEکا اعزاز ملا ۔ڈاکٹر دامانی نے کوہی گوٹھ میں انفیکشن کنٹرول انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ۔انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کو جاری رکھا اور اس کے نتائج کا اشتراک عالمی ادارہ صحت (WHO)کے ساتھ بھی کیا ۔ جماعت کی فخریہ وسعت کا احاطہ ممکن نہیں کیونکہ یہ صلاحیتیں لامحدود ہیں ۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’79 کی جماعت اجتماعی طور پر اتنی پُر اثر کیوں رہی جب کہ دیگر اعلیٰ کارکرکردگی دکھانے والے پیشہ ور ان یہاں اتنے معروف نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ورافراداپنا وطن چھوڑ دینے کے بعداگر مقامی سطح پر پیشہ ورانہ اداروں سے منسلک نہ ہوں تو وہ اپنے ملک سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی حکومت نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حکومت اپنی ‘برآمدشدہ افرادی قوت ‘ پر فخرتوکرتی ہے جس نے مالی سال 2024میں ملک کو 30.3ارب ڈالر فراہم کیے۔یہی سب ہے۔1979 کی جماعت نے کچھ اور اضافی بھی کیا۔ 2004 میں سلور جوبلی کے موقع پر ہم جماعتوں نے اپنی ملاقاتوں کو یقینی طور پرجاری رکھنے کے لیے یاہوگروپ بنایا۔ ڈاکٹر شعیب ثوبانی اور ڈاکٹر خالد اقبال نے اس گروپ کو فعال رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ثوبانی نے پہلے ویب ڈیزائن کا کورس کیا ۔ویب سائٹ بنائی اورYahooگروپ کی جمع کردہ تمام معلومات کو ویب سائٹ پر ڈال دیا۔ انہوں نے اس جماعت کے تقریباً 250 افراد کوآپس میں جوڑے رکھا۔ ہفتہ وار شخصیت کے نام سے 79ء کے ایک ہم جماعت کا کام نمایاں کیا جاتا۔ 2019 میں جماعت 79ء پر ایک 600 صفحات کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔
اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے میں سال 79ء کےہم جماعت ڈاکٹر شیر شاہ سید کی موجودگی نے اہم کردار ادا کیا۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ جس قدر لکھنے میں مشاق ہیں اسی قدر فسٹولا کے علاج میں بھی ماہر ہیں ۔ شیر شاہ نے تولیدی صحت کے شعبے میں اپنی گراں قدر خدمات کے لیے کئی ایوارڈز جیتے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر ایوارڈ Federation International of Gynecology and Obstetricsکی جانب سے ملنے والا ہے۔
جب شیر شاہ برطانیہ سے اپنی پوسٹ گریجویٹ تربیت مکمل کرکے وطن واپس آئے تو وہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے شعبہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے شامل ہوئے۔ مگر چند ہی ہفتوں میں انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔
پہلا جھٹکا انہیں اس وقت لگا جب وہ اس شعبہ کے دیگر ڈاکٹر کے ساتھ روز مرہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ۔جہاں گزشتہ دن ہونے والے کیس کا جائزہ لیاجاتا ۔ان پر گفتگوہوتی ۔ا سی میں انہیں ڈیلیوری کے موقع پر انتقال ہوجانے کا علم ہوا ۔یہ بات شیرشاہ کے لیے حیران کن تھی کیونکہ انہوں نے یہ کبھی نہیں سناتھا کہ کوئی خاتون اس طرح بھی مرسکتی ہے ۔بیرونِ ملک دورانِ تربیت انہیں بتایاگیا تھا کہ اگر زچگی کو درست طریقے سے سنبھالا جائے تو یہ ایک قدرتی اور محفوظ عمل ہے۔
دوسرا جھٹکا انہیں اس وقت لگا جب وہ اسپتال کے ایک وارڈ کے قریب سے گزرے جہاں پیشاب اور فضلے کی بو آ رہی تھی۔وجہ معلوم کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ فسٹولا یعنی زچگی کے عمل کو غیرذمہ داری کے ساتھ برتنے کا نتیجہ ہے ۔پھر اس کے بعد انہوں نے فسٹولا کے علاج کاتین ماہ کا تربیتی کورس مکمل کیا ۔ ‘ہر عورت کے لیے محفوظ تولیدی صحت تاکہ وہ وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے’ ان کی زندگی کا مشن بنا۔ نتیجہ کے طور پر انہوں نے کوہی گوٹھ میں ایک اسپتال قائم کیا جہاں فسٹولا کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ دائیوں اور نرسوں کی تربیت پر مامور اس مرکز نے غریبوں کی زندگی میں امید پیدا کی ہے۔
شیر شاہ کی بھرپور شمولیت اور فراخدلی نے پوری جماعت کو مضبوطی سے جوڑے رکھا ہے۔ وہ ملک بھر میں فسٹولا کے مریضوں کے لیے کیمپ قائم کرتے ہیں اور ان مریضوں کے لیے ایک نعمت ہیں۔
روزنامہ ڈان میں 27 دسمبر 2024 کو شائع ہوا۔