امتحانات کی جانچ

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ :  سیما لیاقت

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی (BIEK) کے حالیہ مگرمتنازعہ امتحانی نتائج نے پورے ملک میں ہمارے امتحانی نظام کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت  کی طرف سے الزام لگایا  گیاہے کہ طلباء کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں طلباء فیل ہوئے ہیں۔  اس عمل کی تحقیقات کسی غیرجانب دار ادارے سے کروائی جائیں۔ یہ حقیقت  ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں  کے امتحانات کے معمہ کو بے نقاب کرنے کے لیے دیانتدارانہ طریقے سے جانچنے  کی ضرورت ہے۔

امتحانات کے ضمن میں کبھی بھی غیرملکی تعلیمی اداروں کے طریقوں پر بات نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی  کبھی پچھلی دو دہائیوں میں بننے والے نجی بورڈ کی ضرورت کی وضاحت کی گئی ہے۔  چونکہ پاکستان میں بچوں کےتعلیمی معیار کا تعین امتحانات ہی کرتے ہیں ۔اس لیے انہیں نظر انداز کرناگویا ناقص تعلیم کو چھپانے کے مترادف ہے ۔ہمارے اسکولوں میں شاید یہی ہورہا ہے۔

آئیے پہلے اپنے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے  مقامی امتحانی بورڈز پر ایک نظر ڈالیں۔ ملک  بھر میں 28 بورڈ ہیں ان میں سے 8صرف سندھ میں ہیں ۔ ہر صوبہ اپنے بورڈ کا انتظام کرتا ہے۔ جبکہ فیڈرل بورڈ اسلام آباد دارالخلافہ کے لیے ہے۔حالانکہ اس کا دائرہ اختیار پاکستان بھر کے ان اداروں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو اس سے ملحق ہیں۔

بورڈز کی کارکردگی کو سمجھنے کے لیے میں قاری کی توجہ کراچی بورڈ پر دلانا چاہونگی ۔جس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ سال  2024 میں تقریباً 167,000 طلباء نے میٹرک کے امتحانات میں شرکت کی۔ 80 فیصد سے زائد پاس ہوئے۔ 88,000 سے زیادہ طلباء اپنے انٹرمیڈیٹ امتحانات میں شریک ہوئے۔لیکن  تمام مضامین پاس کرنے والے طلباء کی تعداد نصف سے بھی کم رہی ۔(ان نتائج کو BIEK کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے) ایسا لگتا ہے کہ طلباء کےلیے ایک امتحان بائیں ہاتھ کا کھیل اور دوسرا امتحان ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا ۔ اسی سبب میڈیکل کالج کے داخلہ امتحانات کے نتائج بہت دل شکستہ رہے۔

جن دو بورڈز کا ذکر کیا گیا ہے  ظاہر ہے کہ وہ اس طرح کام نہیں کر رہے جیسا کہ انہیں کام کرنا  چاہیے۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ غیر منصفانہ طریقوں کا سہارا لینا عام بات ہوگئی ہے، امتحانات سےقبل امتحانی پرچہ عام ہوجاتا ہے۔ طلباء ‘پھرہ’، موبائل فون اور یہاں تک کہ کتابیں  بھی کمرہ ءِ امتحان میں لے جاتے ہیں۔ممتحن کی مدد سے نمبر بڑھ جاتے ہیں ۔  اس مقصد کے لیے مٹھی خوب گرم کی جاتی ہے۔ وزراء اور دیگر حکام کی طرف سے نصاب کے کسی حصے کو  امتحان کے دائرہ ءِ کار سے خارج کردینا یا مخصوص امیدواروں کے نمبروں میں نرمی برتنے کی ہدایات پر کس ردعمل کا اظہار کیا جائے ؟ کچھ دہائیاں قبل ایک  سابق کنٹرولرامتحانات سے  میری ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا اعتراف کیا ۔استعفیٰ کی وجہ یہ رہی کہ انہیں ایک سیاسی جماعت نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ۔سیاسی جماعت کااصرار تھا کہ ان کی قوم کے امیدواروں کو پاس کرایا جائے تاکہ وہ آگے چل کر بااختیار ملازمت حاصل کریں ۔ انٹرمیڈیٹ بورڈ نے خود اپنی ویب سائٹ پر (بعد میں  اسے  بھی ہٹالیا گیا )  اقرار کیا ہے  کہ 189 طلباء نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔89 امیدوار اپنے موبائل فون کے ذریعہ نقل کررہے تھے جبکہ 6طلباء کی جگہ کوئی اور امتحان دے رہا تھا ۔

ہمارے سرکاری بورڈز کی گھناؤنی حالت کو دیکھتے ہوئے  اس بات پر کوئی تعجب نہیں کہ  اشرافیہ کے بچوں کی  تعلیمی ضروریات پوری کرنے والے پرائیوٹ اسکول  کا رحجان اب  او، اور اے لیول کے امتحانات کی طرف بڑھ رہاہے۔ ان غیر ملکی امتحانات کے حوالے سے میرے دو بڑے تحفظات  ہیں۔ پہلا یہ کہ  وہ  معمولی وسائل کے لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔دوسری بات کہ یہ امتحانات ہمیں دو طبقوں میں تقسیم کر رہے ہیں جو ہمارے معاشرہ کے لیے  ہرگزٹھیک نہیں ہے۔

بتایا گیا ہے کہ 2024 میں تقریباً 60,000 طلباء نے اپنے او ،اوراے لیول کے امتحانات میں شرکت کی۔ ہر بچے کو امتحانی فیس کے طور پر تقریباً 240,000 روپے ادا کرنے پڑے۔ مجموعی طور پر ملک نے تقریباً 14.4 ارب روپے کی غیر ملکی کرنسی خرچ کی۔ اس جوازکی کوئی منطق نہیں ہے۔

آغا خان یونی­­ورسٹی ایگزامیشن بورڈ (AKUEB) غیر ملکی بورڈز کے مقامی متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔یہ بورڈ  2007 سے کام کر رہا ہےاوراب تک  اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ اس کا آغاز پہلے میٹرک بورڈ کے طور پر ہوا لیکن اب بورڈ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان کو اپنے لائحہ عمل  میں شامل کیا ہے۔بورڈ نے اپنے  کردار کو امتحانی ادارہ سے آگے بڑھا کر اپنے الحاق شدہ اسکولوں کے اساتذہ کو معاونت فراہم کرنے کا بھی کردار ادا کیا ہے۔

اس کا تازہ ترین اقدام نالج پلیٹ فارم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت  پر دستخط کرنا ہے تاکہ علم کی ڈیجیٹل منتقلی(کتب ،نوٹس ،لیکچرکوروایتی طریقوں سے ڈیجیٹل ذرائع میں منتقل کرنا) کو آسان بنایا جا سکے۔ چونکہ ہماری تعلیمی ناقص حالت کی ایک بڑی وجہ اساتذہ کی تربیت کا فقدان یا ناقص تربیتی معیار ہے۔اس لیے  نالج پلیٹ فارم کو شامل کرنا ایک امید افزاقدم نظر آتا ہے۔ تین سال قبل، بلوچستان ہائی کورٹ نے کچھ مقامی بورڈز کو آغاخان یونیورسٹی ایگزامیشن بورڈ سے رہنمائی لینے کی ہدایت کی تھی جو اس  بورڈکے معیار کاسرکاری اعتراف ہے۔ مزید اسکولوں کو اس کے ساتھ الحاق کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک  ضیاء الدین بورڈ کا تعلق ہے وہ ابھی بہت کم عمر ہے کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جاسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں تعلیم کو بہتر بنانا ہے تو اسے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔اگر اصلاحات کو مؤثر کرنا ہے تو اس شعبہ کے تمام پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ ڈان میں10 جنوری 2025 کو شائع ہوا۔

https://www.zubeida-mustafa.com