تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت
اگر نوجوان مردوخواتین پر مشتمل تبدیلی کے پرعزم گروپ لوگوں کے پاس جائیں ،ان سے بات کریں ، ذاتی طور پر انہیں سنیں ،دونوں طرف سے خیالات کا تبادلہ ہوتو پھر شاید ایک بامعنی مکالمہ کی شمع روشن ہوسکے ۔لیکن لوگ عدم تحفظ کا شکارہیں اور ان کے اس خوف کو دور کرنا ہوگا۔
حال ہی میں، خواتین کے حقوق اور فنونِ لطیفہ کی سدابہار علمبردار شیما کرمانی نے خواتین اور اقلیتوں پر توجہ دیتے ہوئے بڑھتے ہوئے تشدد، عسکری انتہا پسندی، ماحولیاتی تبدیلی اور غربت جیسے موضوع پر ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس پرگرام میں ایسا کوئی بھی پہلو نہ رہا جس پر بات نہ کی گئی ہو۔اس کانفرنس نے طاہرہ عبداللہ اور مریم پلیجو جیسی مضبوط شخصیات کو اکٹھا کیا ۔ لیکن آخر اس ملک میں اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ لوگ عاجز آچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی نشستیں انہیں اپنے غصے کے اظہار کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ہر مقرر کو بات کرنے کے لیے پانچ منٹ دیئےگئے تھے ۔کیا واقعی ان مقررین پر طے شدہ وقت سے زیادہ بولنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟ باوجود اس کے ان پروگرام میں اکثر ان لوگوں کو ہی قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو پہلے ہی سے قائل شدہ ہیں۔ ایسی کانفرنس کو بامعنی بنانے کے لیےان کا اختتام قابلِ عمل سفارشات کے ساتھ ہونا چاہیے۔
اگر اس دیوانگی کا کوئی جواز ڈھونڈنا ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے کو جکڑے ہوئے ہےتو ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے اور اسی تجزیہ کی بنیاد پر شدت پسندی کوروکنے کےلیے کوئی تدبیر کی جائے۔ سماجی کارکن عارف حسن نے اس موضوع پر شاندار تجزیہ پیش کیا۔مگر ہم یہ سوچتے رہ گئے کہ کیا کیا جاناچاہیے۔
عارف کے مطابق تنزلی کی شروعات جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت سے ہوئیں۔ ان کی جابرانہ پالیسیوں نے نوجوانوں سے وہ آزادی چھین لی جس کے ذریعے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی کا مطلب مباحثوں، کھیلوں کے مقابلوں اور ثقافتی مظاہر جیسے رقص، موسیقی وغیرہ کا خاتمہ تھا۔
تمام مزاحمت اِس سیاسی جبر کی مخالفت تک ہی محدود رہی۔ آج بھی لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل انتخابات اور جمہوریت ہے۔
اگر لفظ کامیابی کو اسی سیاق میں استعمال کیا جائے تو میں یہاں اضافہ کرنا چاہونگی کہ جنرل ضیاء کی سب سے بڑی کامیابی نوجوانوں کی ذہنیت کو بدلنا تھا تاکہ پاکستان کا مستقبل بھی یقینی طور پر تبدیل ہو سکے۔اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعدانہوں نے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی معاونت سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس خاص عرصہ میں جماعت اسلامی کے پاس تعلیم کا قلمدان تھا۔ جس میں مدارس کو بے پناہ اہمیت دی گئی اور جنرل کے رائج کیے گئے اسلامی قوانین کےمطابق نصاب ڈھال دیا گیا۔
حتیٰ کہ سویلین جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آئیں مگرضیاء دور کے بعد بھی ہماری تعلیمی زندگی کا زاویہ تبدیل نہ ہوا ۔ آج جو منظرہم دیکھ رہے ہیں وہ گزشتہ 45 سال کی فکری تربیت کا نتیجہ ہے۔ جب نوجوان نسل نے اپنی زندگی کے جوشیلے سال ضیاء کی باقیات سے متاثر ہوکرگزارڈالے ۔ہر نئی تعلیمی پالیسی اپنے پیشرو کی نسبت زیادہ ماضی پسند رہی ہے۔مدارس ہمارے تعلیمی نظام میں مضبوط قدم جما چکےہیں۔میرے زمانہ ءِ طالب علمی میں پاکستان کے ابتدائی سال ہر گز ایسے نہیں تھے ۔
اب ہم کس طرف جائیں؟ ایک راستہ انفرادی سطح پر بات کرنے کا طریقہ ہے جسےمیں ہمیشہ ہی تجویز کرتی آئی ہوں۔ پاکستان میں اسے کبھی نہیں آزمایا گیا۔ میرے خیال میں وقت کی ضرورت کے مطابق اگر کوئی شخص اس کےقریب پہنچا ہےتو وہ شیما کرمانی ہیں۔ لیکن ان کی تدبیر کو بہتر ، وسیع اور دو طرفہ کرنا ہوگا۔ اگر نوجوان مردوخواتین پر مشتمل تبدیلی کے پرعزم گروپ لوگوں کے پاس جائیں ،ان سے بات کریں ، ذاتی طور پر انہیں سنیں ،دونوں طرف سے خیالات کا تبادلہ ہوتو پھر شاید ایک بامعنی مکالمہ کی شمع روشن ہوسکے ۔لیکن لوگ عدم تحفظ کا شکارہیں اور ان کے اس خوف کو دور کرنا ہوگا۔
میں یہاں ان تین خواتین کی مثال دے سکتی ہوں جن سے میں میری ملاقات رہی ہے اور جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس طریقہ ءِ کا رکو آزمایا اور اسے مؤثر پایا ۔ وہ بنگلہ دیش BRACکی خوشی کبیر،لکھنؤ میں ساہجی دنیا کی ڈاکٹر روپ ریکھا ور امریکی حقوقِ نسواں کی کارکن گلوریا سٹینم ہیں جن کا نعرہ تھا “بات کریں،سنیں اور جڑے رہے”۔
یہ طریقہ زیادہ مؤثر ہے کیونکہ کسی بھی شخص سے اس کے اپنے ماحول میں بات کرنا زیادہ پر اثر ہوتا ہے۔اس ماحول میں وہ اپنے آپ کو محفوظ اور بااعتماد تصورکرتا ہے۔ علاوہ ازیں ہجوم کی ذہنیت ایک چھوٹے گروپ کی ذہنیت سے مختلف ہوتی ہے۔ ہجوم ہمیشہ اپنے سالارکے ماتحت ہوتا ہے جو اس کے کسی بھی فرد کو دی گئی ہدایت سے پیچھے ہٹنے نہیں دیتا۔ افراد کے ساتھ بات چیت کرنا ایک بڑے مجمع کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔
خوشی نے مجھے بتایا کہ ان کے گروپ گاؤں گاؤں گھوم کر خواتین سے غیر رسمی نشستوں میں بات کرتے ہیں ۔جہاں وہ کھل کراپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں ۔ ورما، جنہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر خواتین کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دیا ۔وہ نریندر مودی کے بھارت میں صنفی مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حمایت میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں موجودہ دور کے پاکستان میں یہ حکمت عملی مخلوط گروہوں کے ذریعے آزمائے جانے کے قابل ہے۔ آخرکار علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ خیرو ڈھیرو کی مشکورہ بھی تو مردحضرات سے برابری کی بنیاد پر خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ اگر شروعات کی جائے تو متوازی سوچ کا ایک اہم گروہ پیدا ہو سکتا ہےجو تبدیلی کے لیے اپنی رفتار خود طے کرے گا۔
24 جنوری 2025 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔
www.zubeida-mustafa.com