شام صاحب کی بچوں سے محبت ۔۔ ایک عقیدت

مارچ 2022 میں ،میں نے محمود شام صاحب سے وعدہ کیا تھا كہ میں ان كے  معروف رسالے” اطراف “كے لیے ایک مضمون ضرور لکھوں گی۔کیونکہ پرنٹ میڈیا کے ان نامساعد حالات میں بھی ان کا رسالہ  پوری آب و تاب کے ساتھ مستقل اور یقینی بنیادوں پرملتا ہے۔۔مگر کیا کیجئے کہ تاخیر ہوتی گئی۔اس بات پر مجھے سخت ندامت محسوس ہوتی  کہ  ایک عرصہ دراز بعد یہ توفیق ہوئی كہ قلم اٹھاؤں اور کچھ لکھ ہی ڈالوں۔ اِس تاخیر پر معذرت كے ساتھ مضمون حاضر ہے۔

کیا بچوں كے لیے لکھنا ذہنی بیماری کی علامت ہے ؟

جب میرا محمود شام صاحب سے پہلی دفعہ فون پر تعارف ہوا تو میں چونکہ  اس سے پہلے ہی ان كے نام سے اچھی طرح شناسا تھی۔ روزنامہ ڈان میں کام شروع کرنے کی  ایک مختصر مدت ہی میں دنیا ئےصحافت کی نامور شخصیات سے میں واقف ہو گئی۔ جب 1994 میں شام صاحب روزنامہ جنگ كے مدیر بنے۔ ان دنوں ان  کا بڑا چرچا ہونے لگا۔ اس كے بعد 1999 میں سننے میں آیا کہ اِنہوں نے جنگ   اخبار کی ملازمت ترک کردی ہے۔پھر اکثر لوگوں سے ماہنامہ اطراف کا ذکر سننے میں آنے لگا جو شام صاحب نے2014میں شائع کرنا شروع کیا ۔اور وہ  پوری شان و شوکت سے تاحال جاری ہے۔  لیکن اتفاق کی بات یہ تھی كہ میری ان سے ملاقات  کی کوئی سبیل نہ ہو سکی۔ ایک دن سیما لیاقت نے میرا غائبانہ تعارف شام صاحب سے کرا ہی دیا۔ سیما نے مجھ سے اطراف کے لیے انٹرویو کرنے کی اجازت چاہی  ظاہر ہےکہ اس رسالہ کے لیے انکار کی گنجائش ہی نہ تھی اور میں راضی ہو گئی۔

انٹرویو كے کچھ عرصے بعد محمود شام صاحب کا خود میرے پاس فون آیا اور اِنھوں نے مجھے اطراف کی اس تقریب میں شریک ہونے کی دعوت دی جو وہ ہر سال  خواتین کے اعزاز میں منعقد کرتے ہیں جس میں خواتین كے عالمی دن كے موقع پرغیر معمولی خدمات پر انہیں  انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔

میں تقریب میں گئی ۔اِس تقریب میں مختلف لوگوں كے بارے میں دلچسپ باتیں ہوئیں۔ صاحبِ محفل كے بارے میں مجھے مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جو بات میرے دِل کو یکایک بھا گئی وہ یہ تھی کہ شام صاحب کو بچوں میں بے پناہ دلچسپی اور محبت تھی۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اصلی معنوں میں انسان کو انسان دوست بناتی ہے۔ میں نے بےساختہ شام صاحب سے اِس ضمن میں اطراف كے لیے کچھ لکھنے کا وعدہ کر لیا۔ بعد میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا كہ محمود شام ایک زمانے میں بچوں کے لیے ایک رسالہ ٹوٹ بٹوٹ شائع کرتے تھے جس میں وہ خود بھی قصے کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ساتویں سے لے کر دسویں جماعت کے طلبہ ان میں کہانیاں لکھاکرتے تھے جبکہ پڑھنے والے بچوں کی دلچسپی بھی برقرارتھی ۔ کئی  معروف و معتبر لکھاریوں نے اپنی تحریری زندگی کا آغاز ٹوٹ بٹوٹ سے کیا۔ اس کے علاوہ شام صاحب نے  ۲۰۱۰میں بچوں كے لیے ایک تصویری کتاب “ایاں ایاں  یوں یوں”  تصنیف کی جو بے حد مقبول ہوئی۔اس کتاب میں شام صاحب کی تحریر کردہ  نظمیں ہیں جو بچوں کی محبت میں لکھی گئی ہیں ۔ساتھ ہی رنگین خاکے اس کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔مختلف موضوعات پر40 کتب لکھنا اور وہ بھی پوری  ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ لکھنا یہ مصنف کا  کمال ہی تو ہے کہ انہوں نے بچوں کے لیے اپنی محبت اور جذبات کا بخوبی اظہار کیا ہے۔

میری نظر میں ایک اچھے لکھاری کی شناخت اِس سے ہوتی ہے كہ اس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کبھی نا کبھی بچوں كے لیے قلم اُٹھایاہو ۔ یہ میری اپنی سوچ ہےکہ ہم بچوں کے لیے بھی کچھ کام کریں۔

عالمی ادبی دنیا میں اِس اصول سے کسی کو عام طور سے انکار نہیں ۔ اکثر جگہ بچوں کے لکھنا ایک اخلاقی فرض سمجھا جاتا ہے۔ جب میں روزنامہ ڈان کے Books & Author صفحہ کی انچارج تھی تو مجھے لندن سے شائع ہونے والے اخبار گارڈین كے بہت سے مضامین پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ وہاں میں نے پڑھا کہ  ایک عظیم مصنف سے کسی نے یہ سوال کیا کہ انہوں نے کبھی بچوں کے لیے لکھا ہے ؟ انہوں نے کچھ ناراض ہو کر کہا میرا دماغ ابھی تک صحیح ہے اور میں ذہنی بیماری کا شکار نہیں ہوا ہوں کہ  کمسن لوگوں کے لیے لکھوں۔ اس بات سے برطانیہ کے ادبی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ ایک سے ایک بڑے مصنف نے اِس بات کو نہایت ہی ناشائستہ قرار دیا اور بہت سے لوگوں نے اس لکھاری کو بچوں کا دشمن قرار دیا ۔یہ کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں۔

یہ تو حقیقت ہے كے بچوں كے لیے لکھنا اتنا آسان کام نہیں۔ لکھنے والے کو سلیس اور شائستہ زبان استعمال کرنی ہوتی ہے۔ اسے اپنے مواد اور خیالات کو بھی بچوں کی عمر کے مطابق  ڈھال کرپیش کرنا پڑتا ہے كہ عبارت بچے کی سمجھ میں آجائے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے كہ جو لکھا گیا ہے وہ بچہ  کو دلچسپ اور لطف اندوز لگے ورنہ وہ پڑھنے سے انکار کر دے گا۔ ایسا لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک لکھنے والے كے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے ۔

اردو میں کئی بڑے بڑے شعراء اور مصنفین نے بچوں کے لکھا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ علامہ اقبال ہیں ۔بانگِ درا میں کئی نظمیں بچوں كے لیے لکھی گئی ہیں جو اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور بچے ان کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں  مثلاً لب پہ آتی ہے دعا بن كے تمنا میری جو پاکستان كے ہر اسکول جانے والے بچے نے با جماعت پڑھا ہو گا۔ پرندے کی فریاد ، ماں کا خواب ، بچہ اور جگنووغیرہ بہت جانی پہچانی ہیں ۔ صوفی تبسم کو کون نہیں جانتا۔ ان كی نظم ٹوٹ بٹوٹ اور ثریا کی گڑیا بہت مقبول ہوئیں۔ حکیم سعیدبھی ایک ایسے دانشور تھے جن کی پہچان صرف حکمت ہی نہیں  بلکہ اپنی علم دانش سے بھی  خوب عزت پائی۔ اِس کے علاوہ بچوں میں علم و ادب کا شوق پیدا کرنے کے حوالے سے بھی یاد کیے جاتے ہیں اور یہ ان کی معتبر شناخت ہے ۔ وہ بچوں کے مشہور رسالے  نونہال كے بانی تھے ۔جس میں ننھے لکھاریوں کو بھی لکھنے کی دعوت دی جاتی ۔اور اِس میں حکیم صاحب خود بھی لکھتے تھے۔

یہاں ان کی لکھی ہوئی کہانی کے ابتدائی جملے پیش کیے جاتے ہیں۔عنوان ہے نیا ِسِلپر”ایک شام میں نے ایک نیا سِلپر خریدا۔بڑا چمک دار تھا۔اس کی چمک دمک دیکھ کر میں بہت خوش ہوگیا ۔ذرا مہنگا ملا ۔کوئی سَوا روپے کا تھا!اسے پہن کر میں ہمدرد دواخانہ پہنچا۔رات کے کوئی دس بجے تھے ۔بھائی جان دواخانہ بندکرانے کے لیے اٹھ رہے تھے ۔ میں نے سیڑھیاں چڑھیں ۔مگر اس شان سے کہ کھٹ پٹ سے زینہ گونج اٹھا۔بھائی جان محترم نے سب سے پہلے سِلپر کی تعریف کی ۔دوسری سانس میں فرمایا :’کیا ضروری تھا کہ اس نئے سِلپر سے زینے کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے ؟مناسب ہے آدمی چلے تو آواز نہ ہو!۔’میں واقعی بڑا شرمندہ ہوا ۔وہ دن  ہے۔(1931)اور آج کا دن ۔میں جب بھی  چلتا ہوں تو میرےقدم رکھنے کی کوئی آواز نہیں آتی۔”

میں نے سنا تھا كہ فیض احمد فیض نے بھی بچوں كے لیے ایک نظم لکھی تھی۔ اور ریختہ میں ایک نظم ملی جو میرے خیال میں  فیض صاحب نے لبنان میں لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان” فلسطینی بچے کے لیے لوری”ہے۔اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے۔

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امی کی آنکھ لگی ہے

میں محمود شام صاحب کو ان کی بچوں کے لیے خدمات پرخراج ِتحسین پیش کرتے ہوئے یہ التماس بھی کروں گی كہ وہ اطراف كے چند صفحات بچوں کے لیے مخصوص کر دیں۔

تاکہ بچوں کے ساتھ ہمارا یہ تعلق برقرار رہے۔

زبیدہ مصطفیٰ

5 اکتوبر 2024