ہوم ورک کیوں ؟

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ : سیما لیاقت

کسی بھی استاد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بطورِ انسان وہ تمام طلبہ کی مختلف تعلیمی استعداد اور الگ الگ دلچسپیوں کو بیک وقت یکساں طور پر مطمئن کرسکے ۔ہمارا تعلیمی نظام ایک کثیر پہلوفیکٹری ہے جو ہر طالب علم کے ساتھ یکساں سلوک برتتا ہے۔ ہر بچے کو اس کی انفرادی خاصیت سے قطع نظرایک مخصوص تیارسانچے میں ڈھال دیاجاتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنی اولاد پر خاص نگاہ رکھتے ہیں وہ اس الجھن کو دورکرنا چاہتے ہیں

حال ہی میں ایک والد نے اپنے سات سالہ بچے  کے ہوم ورک کرنے کے انداز پر کچھ دلچسپ مشاہدات کئے۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ بچے نے خوشی  خوشی وہ کام کیا جس میں اس کی دلچسپی تھی  لیکن جو کام اسے پسند نہیں اس کے لیے بچہ کو مجبور کرنا پڑا۔ والد نے سوال اٹھایا کہ آیا  ایک ہی قسم کا  ہوم ورک تمام طلباء کے لیے مؤثر ہوسکتا ہے؟

کسی بھی  استاد کے لیے یہ ممکن نہیں  کہ بطورِ انسان وہ  تمام طلبہ کی مختلف تعلیمی استعداد اور الگ الگ دلچسپیوں کو بیک وقت یکساں طور پر مطمئن کرسکے ۔ہمارا تعلیمی نظام  ایک  کثیر پہلوفیکٹری   ہے  جو ہر طالب علم کے ساتھ یکساں سلوک  برتتا ہے۔ ہر بچے کو اس کی انفرادی خاصیت سے قطع نظرایک مخصوص  تیارسانچے میں ڈھال دیاجاتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنی اولاد پر خاص نگاہ رکھتے ہیں وہ اس الجھن کو دورکرنا چاہتے ہیں۔

پہلا سوال جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک بچے سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جیتی جاگتی زندگی کا  تقریباً ایک چوتھائی وقت کتابوں اور اپنی کاپیوں پر جوابات  لکھنے میں صرف کردے۔ یہاں میں  پرائمری اسکولوں کے چھوٹے بچوں کا ذکرکررہی ہوں جوعام طور پر دس سال سے کم عمر ہوتے ہیں ۔ میں نے اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک  پرائمری اسکول کی استانی  سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے طلباء کو ہوم ورک دیتی ہیں؟

میرے اس سوال پر چونکنے کے بعد انہوں نے وضاحت کی کہ اپنے طلباء کو نیا سبق سکھانے کے بعد انہیں گھر کے لیے کام  دینا ہوتا ہے۔جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طلباء کو جو کچھ جماعت میں پڑھایا گیا ہے  اسے وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں۔اس طرح اسکول میں پڑھائے گئے سبق کو دہرانے کا موقع ملتا ہے ۔

اب حیران ہونے  کی باری میری تھی۔صاف ظاہر ہے کہ ان استانی جی کو بچے کے اکتسابی عمل کے بارے میں کوئی اندازہ نہ تھا ۔وہ اسے محض ایک ایسا “علم” سمجھتی تھیں جسے استادایک بچے کے دماغ میں اس طرح ڈالتا ہے جیسے کوئی  جگ سے گلاس میں پانی انڈیل دیتا ہے۔ لیکن بچہ اس طرح ہرگزنہیں سیکھتا۔ وہ اپنے تجربے اور جستجوکی مدد سے خود سیکھتا  ہے۔  کم عمری میں ہی وہ اپنے مختلف حسی تجربوں کی مدد سے جو کچھ بھی سیکھتا ہےدراصل اسے علم کہتے ہیں ۔بچہ کی فطری جستجو اس کی ذہنی صلاحیتوں کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں معاون ہوتی ہے۔ یہ علم محض  زبانی طور پر منتقل نہیں کیا جاتا  اورجب بچہ ایک بار اس کا تجربہ کرلیتا ہے تو پھر کبھی نہیں بھولتا۔ نہ ہی  اسے  بار بار ہوم ورک کے ذریعہ دہرائے جانے  کی ضرورت ہوتی ہے۔مزید یہ کہ بچے فطری طور پر جداگانہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اوران کی نشونما مختلف اندازمیں ہوتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ کچھ بچے ایک چیز میں دلچسپی لیتے ہیں جبکہ دوسرے  بچے اسی چیز سے اکتاجاتے ہیں ۔

یہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیں جن سے ہمیں کبھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم فطری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے  ہوئے کسی بچے پر بے جا روک ٹوک اور زبردستی کے قوانین مسلط کریں گے تو لازمی طور پر بچہ اپنا ردعمل ظاہر کرے گا اوراسے سیکھنے میں کبھی دلچسپی نہیں ہوگی۔ اگر کوئی استاد یہ محسوس کرتا ہے کہ بچے کوسبق یاد رکھنے کے لیے گھر کاکام دینا ضروری ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اساتذہ اور ان کے طریقہ ءِ تدریس کو جانچنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ کھیل کود ایک  چھوٹے بچے کے لیے سیکھنے کا سب سےمؤثر ذریعہ ہے۔ لیکن کتنے اسکول ایسے ہیں جن میں کھیل کے میدان ہیں  اور کتنے اسکولوں میں ایسا تدریسی مواد دستیاب ہے جس کی مدد سے  سے بچہ تیزی سے اور مؤثر طریقے سے سیکھتا ہے؟ بدقسمتی سے جسمانی ورزش پر بھی  اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی دی جانی چاہیے۔ حالانکہ یہ بچے کی دماغی نشونما کے لیے بہت  ضروری ہے۔

سسٹر زینیا پنٹو کی قیادت میں سینٹ جوزف کانونٹ اسکول کراچی کے پرائمری سیکشن  میں نہ تو کوئی قابلِ ذکر ہوم ورک دیا جاتا تھااور نہ ہی امتحانات منعقدہوتے تھے ۔ بچے خوشی خوشی ، دوستانہ ماحول میں  بغیر جبر کے بہت کچھ سیکھ جاتے تھے ۔بجائے اس کے کہ جو استاد انہیں پڑھانا چاہتا ہے وہ  ان پر زبردستی تھوپاجائے ۔ سب سے بڑھ کر سسٹر زینیا  اس بات پر زور دیتی تھیں کہ بچے خود اپنی پسند کی سرگرمی کریں جو اس بات کا ضامن ہے کہ وہ اپنی آزادی  سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ چند الفاظ ہمارے ان اساتذہ اور والدین کوقائل کرنے کے لیے ہیں جو بچے کی تعلیم کے ضمن میں  مغرب کو مثالی نمونہ سمجھتے ہیں ۔میں نے اپنے  نواسہ نواسیوں سے پوچھا کہ جب وہ پرائمری اسکول میں تھے تو کیا اس وقت انہیں گھر کے لیے کام دیا جاتا تھا  ۔ کینیڈا میں مقیم  نواسی نے کچھ دیر سوچا اورکہا کہ اسے صرف ہفتے میں ایک بار ہوم ورک ملتا تھاجسے ختم کرنے اور جمع کرنے کے لیے پورا ایک ہفتہ دیاجاتا ۔میں نے پوچھا کہ اسے مکمل کرنے میں کتنا وقت لگتا تھا۔اس نے  بہت پرسکون اندازمیں کہا ”  10 یا 15 منٹ سے زیادہ نہیں” ،برطانیہ میں  رہنے والی نواسی نے  بتایا کہ پیر  والے دن گھر کے لیے کام دیا جاتا تھا۔ نئے سوالات دئیے جاتے تھےاورانہیں بھی  اپنا کام مکمل کرنے کے لیے ایک ہفتہ دیا جاتایعنی اگلے پیر کوکام جمع کرانا ہوتا۔ کسی نے بھی  کام کے بوجھ کی شکایت نہ کی۔

کیا ہمارے بچے اتنے ذہین نہیں ہیں کہ ہر روز  بنا ہوم ورک کے کچھ سیکھ سکیں ؟ کیا ہمارے اساتذہ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہےیا ہمارا  تعلیمی نظام  ہی ناقص ہے؟

بچہ کی فطری تعلیم کی راہ میں ذریعہ تعلیم کی زبان رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اگر بچے پر کوئی اجنبی زبان تھوپ دی جائے تو لازمی اس کی نفسیاتی نشونما  متاثر ہوگی۔ اس صورت میں خوداکتسابی کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعدواحد راستہ رٹاازم ہی رہتا ہے جس کے لیے لامحالہ بار بار دہرائے جانے کی مشق کرنی ہوتی ہے ۔اورپھراسی لیے ہوم ورک کی ضرورت رہتی  ہے۔

7 فروری 2025 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔

www.zubeida-mustafa.com