پولیو چیلنج

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ
اردو ترجمہ : سیما لیاقت

پاکستان میں پولیو کامرض ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اب یہ صرف صحت کا معاملہ ہی نہیں رہا بلکہ اس نے سکیورٹی اور سیاسی شکل بھی اختیار کرلی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پچھلے سال پولیو کے 74 کیس سامنے آئے تھے ۔

پاکستان ابھی بھی دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں یہ بیماری ابھی تک موجود ہے۔ دوسرا ملک افغانستان ہے۔ پولیو کا مرض بچے کو ایک ہاتھ یا پیر سے معذور بنادیتا ہے ۔نیا سال ابھی شروع ہی ہوا ہے لیکن ابتدائی چند مہینوں میں ہی پاکستان میں پولیو کے چھ کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔

اس بار معاملہ نے سنگین رخ اختیار کرلیا ہے کیونکہ رپورٹ کے مطابق اسے سیاسی رنگ دیا جاچکا ہے ۔ خاص طور پرکچھ لوگ پولیو کے کیسز کومرکز اور صوبوں بالخصوص وفاق اور صوبہ پنجاب کے درمیان تنازع کی صورت دیکھ رہے ہیں۔قومی ادارہ برائے صحت نے متعلقہ حکام کی طرف سے کئے گئے ٹیسٹ کی بنیاد پر پنجاب میں پولیو کے ایک کیس کی تصدیق کی۔ مگرپنجاب میں حکام نے اس کیس کو چیلنج کرتے ہوئے اسے پولیو کا محض ‘ہلکا پھلکا’ کیس قرار دیا ۔ دوسری صورت میں اس کی علامات کو معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مالی بدعنوانی بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔کیونکہ حالیہ رپورٹس کے مطابق بیرونی آڈیٹرز بجٹ دستاویزات میں دکھائی جانے والی رقوم کے لین دین سے کہیں کہیں مطمئن نہیں ہیں۔

1974 میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام ملک بھرمیں متعارف کرایا گیا ۔ دیگر حفاظتی ٹیکوں کی ویکسین کے مقابلے میں یہ پروگرام ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا ہے۔ یہ حیران کن ناکامی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔کیونکہ پاکستان کی کارکردگی پولیو سے پاک دنیا کی توقع رکھتی ہے۔ اس بیماری کو ختم نہ کرنے والی ناکامی سے عالمی سطح پر ہماری بدنامی ہوئی ہے۔جس نے ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

سب سے اہم سوال جو ہمیں خود سے کرنے کی ضرورت ہے کہ : جب ہم نے بہت سی دوسری بیماریوں پر کسی حد تک قابو پالیا ہے تو پھر پولیو کا خاتمہ اتنا مشکل کیوں ثابت ہو رہا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ جن حکام کا فرض عوام کی صحت کا خیال رکھنا ہے ۔وہ اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے ادا نہیں کررہے ۔یہاں ڈاکٹر شیر شاہ سیدکا حوالہ ضروری ہے ۔ڈاکٹر شیر شاہ حقیقی معنوں میں عوامی ڈاکٹر ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ وہ اس کے لیے سنجیدہ اور پُرعزم تھے۔ چونکہ پولیو غریبوں کے بچوں کو متاثر کرتا ہے اس لیے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے غیر ضروری مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ عوامی صحت کے ذمہ داران اگر سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں تو پولیو کو ملک سے مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سےحکومت اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔

ایک اور اہم پہلو جس کی طرف ڈاکٹر حضرات نے توجہ دلائی ہے کہ ویکسین کی مناسب دیکھ بھال اور کولڈ چین ( دورانِ سفر جس ڈبے میں ادویات ایک مطلوبہ درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہیں) کا درجہ حرارت بحال رکھنے میں غفلت برتی جاتی ہے۔ پولیو ویکسین درجہ حرارت کے لحاظ سے انتہائی حساس ہوتی ہے ۔اس کی تاثیر کو برقرار رکھنے کے لیے اسے ٹھنڈے ماحول میں ذخیرہ کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملہ میں لاپرواہی برتنے پر نئے کیس سامنے آئے ۔ جواز پیش کیا گیا کہ ویکسین کو مطلوبہ درجہ حرارت پر نہ رکھنے سے اس کی تاثیر متاثر ہوئی ہے ۔ اگرچہ ویکسین نے اس مرض سے کسی حد تک مدافعت فراہم کی تھی۔

کولڈ چین کے مسئلے کو طویل عرصے بعد اس سال دوبارہ سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایسے اہم پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر غلط طریقے سے ویکسین ذخیرہ کرنے کی وجہ سے ایک بھی

پولیو کیس سامنے آیا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے جہاں ماؤں نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے بچے کو پولیو کے قطرے پلانےکے باوجود پولیو کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔

پولیو پروگرام کو درپیش ایک اور سنگین مسئلہ غیر معمولی طور پر ملازمین کی ایک بڑی تعدادکا ہونا ہے ۔اس کام کے لیے تقریباً 4لاکھ اہل کار ہیں ۔جو اس پروگرام پر عمل درآمد کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے پر کئی سالوں میں اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ تعینات کی گئی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس سے قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں کہ شاید کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ پروگرام ختم ہو۔کیونکہ اس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مستقل روزگار ملنے کا امکان ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ان خدشات پر غور کرے اور ایسے منصوبے تیار کرے کہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم پر مامور عملے کی ضرورت ختم ہونے کے بعد انہیں صحت کے دیگر شعبوں میں متبادل روزگار فراہم کیا جاسکے۔

یونیسیف کے مطابق پاکستان کا پولیو پروگرام 2021میں اتنا کامیاب رہا کہ اس سال صرف ایک کیس سامنے آیا۔ اس خبر سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ ملک میں اس بیماری کا خاتمہ جلد ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں نے اس عمل میں مداخلت کی جس سے اس کامیاب حکمتِ عملی کو نقصان پہنچا۔ تاہم پولیو ورکرز کو حفاظتی اقدامات اور مؤثر منصوبہ بندی سے تحفظ فراہم کیا گیا۔جس کی وجہ سے بچوں تک ویکسین پہنچانے اور پروگرام کو آگے بڑھانے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

یہ سچے دل سے امید کی جاتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما سمجھداری کا مظاہرہ کریں اور پولیو کے ’ہلکے‘ یا ’شدید‘ کیس جیسے معاملات پر بحث نہ کریں کیونکہ پولیوآخرکارپولیو ہی ہے۔کوئی معمولی چیز تو نہیں۔

7 مارچ 2025 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔ mustafa.com-www.zubeida