اظہارِ عقیدت

تحریر: زبیدہ مصطفیٰ

اردو ترجمہ : سیما لیاقت

میں نے “ڈان” کی ملازمت کے بعد جب کچھ عرصہ رضاکارانہ درس و تدریس سے وابستگی اختیار کی تو “دی گیراج اسکول” کے بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار تجربہ کیا۔ میں بچوں کو ان کی کتاب سے سبق پڑھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتی ۔پھر جب وہ اسے اچھی طرح سمجھ لیتے تو اسی مواد پر مبنی ایک چھوٹا سا ڈرامہ بھی کیا جاتا۔ مجھے یہ طریقہ بہت مؤثر معلوم ہوا۔

بچے جو کچھ بھی توجہ سے پڑھتے ہیں وہ اسے سمجھ جاتے ہیں کیونکہ اگر وہ یہ مواد دلچسپی سے نہ پڑھیں تو اسے سمجھ بھی نہیں پائیں گے اور نہ ہی اس پر ڈرامہ بناسکیں گے ۔

یہ طریقہ ان کے لیے بہت دلچسپ بھی تھا کیونکہ اس طرح وہ اپنے سبق کوروایتی تدریسی انداز کے مقابلے میں کہیں بہتر طریقے سے سیکھ سکتے تھے۔ عام طور پر اسکولوں میں استاد سبق پڑھ کر سناتے ہیں۔الفاظ معنی سمجھانے کے بعد بچوں کو سوال جواب کی مشق کرائی جاتی ۔ اس پوری سرگرمی میں زیادہ چلبلے اور ذہین بچے قواعد، نظم اور تال جیسے باریک نکات بھی سمجھنے لگتے۔

اس نظریے کی تصدیق پاؤلو فریئر نے اپنی کتاب We Make the Road by Walking: Conversations on Education and Social Change میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : “استاد بلاشبہ ایک فنکار ہوتا ہے لیکن فنکار ہونے کا مطلب ہرگزیہ نہیں کہ وہ کسی مخصوص سانچے میں طلبہ کو ڈھال سکتا ہے۔ تدریس کے ضمن میں میں استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ طلبہ کے لیے اپنی شخصیت کو دریافت کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پہنچاننا ممکن بنائے۔”

بچوں کو رقص اور موسیقی جیسے فنون سے محروم رکھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔

فریئر کے خیالات کی روشنی میں کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول میں فنونِ لطیفہ کیوں نہیں سکھانا چاہتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی، رقص، گانا اور مختلف ساز بجانا ہمارے معاشرے میں ثقافتی طور پر بالکل بھی قابل قبول نہیں۔ بصری فنون (Visual Arts)وہ واحد شعبہ ہے جسے کسی حد تک قبولیت ملی ہے ۔

بہت سے لوگ اس کا یہ جواز گھڑتے ہیں کہ گانا بجانا کوٹھا ثقافت سے جڑاہواہے۔یہی وجہ ہے کہ ‘مہذب’ مردوں ،خواتین کے لیے یہ مناسب عمل نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ایک امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ہمارے معاشرہ میں صوفیانہ شاعری اور موسیقی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے ۔جسے عوام میں پسند بھی کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پرمرزا غالب اور شاہ عبداللطیف بھٹائی آج بھی دنیا کے بہترین شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بھٹ شاہ میں صدیوں بعد بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مرید آج بھی ان کے مزار پر گیت گاتے ہیں۔ تشدد کی دھمکیوں کے باوجود انتہا پسند بھی اس روایت کو نہیں توڑ سکے۔ شیعہ مسلک میں فنون لطیفہ کی روایت نے میر انیس اور مرزا دبیر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ۔ کجن بیگم اور ان کی بیٹی مہناز بیگم جیسی کئی گلوکاروں نے مرثیہ نگاری کے فن میں کمال حاصل کیا۔ اسی طرح قوالی کی مثال بھی موجود ہے جسے امیر خسرو نے نہ صرف عروج بخشا بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے طبلہ اور ستار ایجاد کیے۔

مخصوص روایتی مواقع پر فنونِ لطیفہ کبھی بھی عوام میں پذیرائی سے محروم نہیں ہوتے ۔

ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو بچوں خاص طور پر لڑکیوں کو رقص اور موسیقی کے فوائد سے محروم رکھنا ایک ناقابلِ فہم رویہ معلوم ہوتا ہے۔ موسیقی کی ایک نمایاں خصوصیت صوفیانہ اور روحانی پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ثقافتی مقبولیت بھی ہے۔

بہت سی خواتین نے فنونِ لطیفہ سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کی ہمت دکھائی ہے۔یہ ہنر انہیں قدرت کی طرف سے عطا ہواہے۔مگر انہیں اُس بدنامی سے دوچار ہونا پڑا جو معاشرے نے ان پر مسلط کر رکھی ہے۔ تحریکِ نسواں کی بانی شیما کرمانی نے اپنے فن کو پاکستان میں صنفی مساوات کی جدوجہد کے لیے استعمال کیا۔ دیگر خواتین نے بھی ملک کا نام روشن کیا۔جیسے سُہائی ابڑو جواٹلی میں مقیم ہیں ۔انہوں نے اپنے رقص کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی نمائندگی کی ۔

فنکاروں کی یہ لگن ہمہ جہت بھی ہے اور مذہبی بھی مگر محبت کا عنصر ہمیشہ اس میں شامل رہاہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خواتین کے جمالیاتی اظہار کی صلاحیت اور ان کے حق کو دبانے کے لیے جھوٹے حیلے بہانوں سے ان پر الزام تراشی کے سلسلہ کو بند کریں ۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے طبقاتی معاشرے میں صحیح اور غلط کا وہ معیار نہیں ہے جو ایک خاتون کے لیے ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ فنونِ لطیفہ عمومی طور پر منافع بخش نہیں ہوتے۔ فنکار کے لیے زیادہ مالی وسائل بھی میسر نہیں ہوتے۔ایک ایسے ماحول میں جہاں عہدے پر فائز لوگ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔وہاں سب سے زیادہ نقصان خواتین اور فنونِ لطیفہ کو پہنچتا ہے۔ یہی موقع ہے کہ ہم فنون کی وہ عزت و توقیر کریں جس کے وہ حقدار ہیں تاکہ ہمارے بہترین ہنر مندوں کو ترقی کے مواقع میسرآ سکیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی فنکار کی مہارت صرف روزگار کی بدولت نہیں ہوتی بلکہ یہ صلاحیت اس کے فطری شوق اور محبت سے جنم لیتی ہے۔ بھٹ شاہ میں فن کی ادائیگی کرنے والوں کا آغاز ہمیشہ ‘اللہ ہو’ سے ہوتا ہے، یہ ایک ایسا اظہار ہے جو محض مذہبی پہلو کے بجائے معاشرے کی ایک مقامی ثقافتی خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے۔

دریں اثنافنون لطیفہ کا مظاہرہ یقینی بنانے کے لیے پاکستان میں رقص کو مقامی سطح پر قبول کرنا ہے۔ اس میں عقیدت کے مضبوط عنصر اور ثقافتی جہت کو شامل کرنا بھی ضروری ہے۔

اور کسی بھی صورت میں اسے محض تجارتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

21 مارچ 2025 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔

https://www.zubeida-mustafa.com